نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ بجلی بلوں پر عوام کی تکلیف اور غصہ جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے 17 اگست کو حلف اٹھایا جبکہ موصول ہونے والے بل جولائی کے ہیں۔ وزیر اعظم نے اضافے کا نوٹس لیا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ مرتضیٰ سولنگی کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ بل نگران حکومت کے آنے سے پہلے کے ہیں مگر غریب عوام پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کو ریلیف دینا حکومت کا فرض ہے۔ بجلی کے بلوں کے بارے میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ وہ تو کہتے تھے کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر غریبوں کو ریلیف دوں گا مگر وہ غریبوں کو عذاب میں مبتلا کرکے ملک سے باہر چلے گئے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جنہیں ڈالر کی قیمت کم کرنے، پٹرول اور بجلی سستی کرنے کے وعدے پر وزیر خزانہ بنایا گیا وہ بھی پاکستان کے غریب عوام پر مہنگائی کے بم گرا کر لندن چلا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بجلی، پٹرول اور ڈالر مہنگا کرنے کے ذمہ دار پی پی، (ن) لیگ اور تحریک انصاف ہیں اب عوام کو چاہئے کہ وہ ان جماعتوں کے قائدین سے پوچھیں کہ انہوں نے غریبوں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں کیا؟ وزیر اعظم کی طرف سے بجلی کی قیمتوں کے مسئلے پر بلائے جانے والا اجلاس بھی ابھی تک کارآمد ثابت نہیں ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ بھاری بلوں کو کچھ عرصے کیلئے التواء میں ڈال کر اکتوبر کے بعد آنے والے بلوں میں وصول کرنے کی سکیم بنائی جا رہی ہے۔ یہ کوئی ریلیف نہیں ہے، قسطیں تو ویسے بھی صارفین بنوا رہے ہیں۔ اصل بات مسئلے کا مستقل حل ہے۔ مہنگی بجلی کی وجوہات میں جہاں آئی ایم ایف کا عذاب ہے وہاں مہنگے بجلی گھر بھی ہے۔ تھرمل بجلی گھر مہنگی بجلی بنا رہے ہیں۔ درآمدی کوئلے کا عذاب الگ ہے۔ شمسی توانائی اور سولر بجلی گھروں پر توجہ نہیں دی گئی۔ چولستان میں سولر پلانٹ لگایا گیا جو کرپشن کی نذر ہو گیا۔ ہوا اور دیگر ذرائع سے بننے والی بجلی پر بھی کوئی توجہ نہیں۔ سب سے سستی بجلی پانی سے بننے والی بجلی ہے۔ کالا باغ ڈیم کے قیام سے جہاں پانی کو ضائع ہونے سے روکا جا سکتا ہے وہاں بھاری مقدار میں بجلی بھی بنائی جا سکتی ہے مگر کالا باغ ڈیم کا جرم یہ ہے کہ یہ وسیب میں آتا ہے اور ملک و قوم کے معاشی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ قومی مسائل پر نئے سرے سے معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ ملک میں بجلی کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ملک میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد بجلی کنکشن ہیں جن میں سے چالیس لاکھ سے زائد اے سی والے کنکشن ہیں۔ ایک کنکشن پر جو ٹیکس ہیں اس کی تفصیل سے بھی خوف آتا ہے۔ ان ٹیکسوں میں جنرل سیلز ٹیکس، بجلی ڈیوٹی، ریڈیو ، ٹی وی ٹیکس، انکم ٹیکس، ایف سی چارج ٹیرف، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجز، فنانشل کاسٹ چارجز، میٹر رینٹ، ایڈجسٹمنٹ چارجز، ایکسٹرا چارجز اس کے علاوہ ملک میں جتنی بجلی چوری ہوتی ہے اس کا خمازہ بھی غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بجلی چوری میں فاٹا پہلے، آزاد کشمیر دوسرے، خیبرپختونخوا، سندھ بلوچستان اور پنجاب تیسرے چوتھے نمبر پر ہیں۔ مقتدر طبقوں کو اس مسئلے پر غور کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ بجلی کا مسئلہ ہے تو میرا اے سی بند کر دو ۔ یہ کوئی مسئلے کا حل نہیں، بذات خود یہ بات ایک مذاق کے زمرے میں آتی ہے۔ بجلی کے بحران کے حل کیلئے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو گا اور غریبوں کو بجلی کے عذاب سے بچانا ہو گا۔ ابھی ابھی جو خبر موصول ہوئی ہے اس کی تفصیل پڑھنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جہانیاں سے خبر کی تفصیل یہ ہے کہ بل ادائیگی کے باوجود بجلی بحال نہ ہوئی تو گھریلو حالات سے تنگ چار بچوں کی ماں نے خودکشی کر لی۔ افسوسناک واقعہ ضلع خانیوال کی تحصیل جہانیاں میں پیش آیا جہاں بل ادائیگی کے باوجود بجلی بحال نہ ہونے پر گھریلو حالات سے تنگ آکر چار بچوں کی ماں نے زہریلی گولیاں نگل لیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں اس طرح کے واقعات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کی جواب دہی امیر المومنین سے ہو گی، لیکن یہاں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مہنگائی ہو گئی ہے تو کیا ہوا؟حکمرانوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ بجلی کا احتجاج فسادات میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے لوگ سول نافرمانی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ حقیقی سوال ہے کہ لوگ آٹا لیں یا بجلی کا بل ادا کریں؟ آج بجلی کے بل نذر آتش ہو رہے ہیں کل پتلے نذر آتش ہوں گے۔ یہ مطالبہ بجا اور درست ہے کہ کسی کیلئے بھی بجلی کا ایک بھی یونٹ فری نہیں ہونا چاہئے۔ غریب کیلئے بجلی دس روپے فی یونٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ لوگ خودکشیاں نہ کریں تو کیا کریں؟ غربت، بیروزگاری اور بجلی کی مہنگائی سے ہونیوالی ہر خودکشی کا واقعہ ایک قتل ہے۔ جس کے ذمہ دار وقت کے حکمران ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کوئی اپنے خلاف رپٹ درج نہیں کرتا، تاہم حکومت اپنے خلاف مقدمہ درج نہ بھی کرے تب بھی لوح وقت پر ایف آئی آر خود کار سسٹم کے تحت درج ہو رہی ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ افسران اربوں روپے کی بجلی مفت حاصل کر رہے ہیں اور کھربوں کی بجلی چوری کراتے ہیں۔ خوفناک بجلی بلوں کے باوجود لوڈشیڈنگ کا عذاب اب بھی باقی ہے۔ لوگ سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر سیاستدان ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھے ہیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ لوگ مر رہے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وسیب میں روزگار نہیں ہے۔ مظفرگڑھ میں آئل ریفائنریز اوربجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگائے گئے مگر ملازمتوں سے مقامی افراد کو محروم رکھا گیا۔ زہریلے دھوہیں سے وسیب کے لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس سی اور اندھے پن جیسے امراض کی سزا بھگت رہے ہیں مگر وسیب کو ہر معاملے میں محروم رکھا جا رہا ہے۔ جب تک صوبہ نہیں بنے گا ہمارے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔