مشکل پڑی تو یار ہمارے بدل گئے لیکن یہ سخت جان اگر پھر سنبھل گئے ریگ روان دشت تھا حرص و ہوس کا شہر ہم بھی اسی فریب میں حد سے نکل گئے وہی کہ ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ۔انسان کو اپنا پتہ تو ہوتا ہے مگر تسلیم کرنے میں انا آڑے آتی ہے یا شرم دامن گیر ہوتی ہے۔ آڈیوز نے دیوار کے پیچھے کا ساز منظر کھول دیا ہے اور اب یہ کہے بغیر نہیں بنتی کہ یہ جدید ٹیکنالوجی ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔لب لباب یہ کہ کوا سفید ہوا چکا ہے۔ اگرچہ اس وقت عمران خاں اپنی بپتا میں ایک نام کاتذکرہ ٹیپ کی لائن کی طرح لاتے ہیں، حقیقت پسندی کی طرف آخر آنا پڑتا ہے کہ ہر مرتبہ 15پنکچروں کی بات نہیں چلتی ۔کچھ کچھ غبار چھٹتا جا رہا ہے اور نظر آنے لگا ہے کہ الیکشن قریب نہیں ہیں جبکہ خان صاحب انہیں عنقریب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے یہ درست کہا کہ ٹیکنو کریٹ کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے جسے وہ قبول نہیں کریں گے۔ قبول کرنا بھی نہیں چاہیے اس پر ارشاد احمد عارف بھی کہہ چکے ہیں کہ ٹیکنو کریٹ کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے اور یہ آئین سے انحراف ہو گا۔ باتیں تو خان صاحب کی دلچسپ ہوتی ہیں، حکومت میں بیٹھے لوگوں سے پیچھے بیٹھے لوگ زیادہ اہم ہیں، الیکشن کے لئے ان کا راضی ہونا زیادہ ضروری ہے لیکن یہ بات ان کی مسکرانے کے لئے ہے کہ اگر الیکشن میں پولیٹیکل انجینئرنگ ہوئی تو نہیں مانی جائے گی ظاہر اگر ووٹنگ مشین چل گئی تو کیا ہو گا۔ ویسے یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں جب وقت آتا ہے تو کوئی نہ کوئی نیا کرشمہ نظر آ ہی جاتا ہے اور نہیں تو بتی ہی چلی جاتی ہے۔ شیخو پورہ کے ماسٹر صاحب یاد آتے ہیں ’’اونیں سانوں ملن نوں آناں ایں ۔سارے شہر دی بتی گئی ہوئی اے ‘‘ ما سٹر عنایت کا ایک اور خوبصورت شعر یاد آ گیا: کنیں بھانبر دبے نیں ماچس دی اک تیلی وچ یہ تو عمران خاں کے خدشات و وسوسے تھے کہ انہیں اپنی کامیابی کی امید کے ساتھ ساتھ دھند نظر آ رہی ہے کہ جس میں رستہ نظر نہیں آ رہا۔دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔ان کی باتوں میں اعتماد نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ توانائی بچت پلان پر عمل ناگزیر ہے۔انہیں سوچنا چاہیے کہ ان کی اپنی توانائیاں کہاں صرف ہو رہی ہیں ان کی توجہ اصل مسائل کی طرف نہیں ،زیادہ خرابی یہ ہے کہ آپ صرف مرکز کے اندر ہی تھوڑے بہت فعال ہیں کہ کسی طرح سینے میں دل دھڑکتا رہے۔نبض ڈوبتی ہے اور پھر بحال ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی تو یہ گمان گزرتا ہے کہ کسی کے بس میں بھی کچھ نہیں ،لے دے کے ایک پرویز الٰہی ہیں جو سب سے بڑے صوبے میں پا ہیں کہ انہیںسپیس ملی ہوئی ہے یہ توہم کا کارخانہ ہے ہاں وہی ہے جو اعتبار کیا وہ قوم کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسی نبض پر پہلے خان صاحب نے ہاتھ رکھ چھوڑا اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ دینی تعلیم ہی سے اچھی نسل پروان چڑھ سکتی ہے وہ کہتے ہیں ان کی نیت ٹھیک ہے۔ خاتم النبینؐ یونیورسٹی کا بل پاس ہو چکا ہے الازہر یونیورسٹی سے الحاق کیا جائے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں اسلامی ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے سراج الحق صاحب تو خوب مہم چلا رہے ہیں سود کے خلاف بھی کام ہو رہا ہے اور نظام کی بنیادی تبدیلی ضروری ہے کتنی اساسی بات ہے جو سراج الحق صاحب نے کہی کہ عدل ہی اصل چیز ہے اور وسائل کی مساوی تقسیم۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ازبس ضروری ہے قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے۔ کہتے تو دوسرے بھی یہی ہیں مگر ان کے اپنے اپنے جج ہیں جو مشکل وقت کے لئے انہوں نے کبھی پلانٹ کئے تھے اور اب وہ پھل دے رہے ہیں۔ چلیے سیاست سے نکل کر ایک دو اچھی خبروں کا تذکرہ کئے دیتے ہیں ایک تو ایک کشمیری نوجوان کی بات اچھی لگی کہ اس کے ایک شاندار خواب کو تعبیر ملی کہ وہ اپنی ماں کو پائلٹ بن کر خانہ کعبہ لے جانا چاہتا تھا اس نے خوشی سے بتایا کہ اصل میں میری والدہ یہ چاہتی تھیں اور اسے توفیق ملی کہ یہ کام سرانجام دے۔ دوسری خبر دلچسپ ہے کہ ایک طالب علم فزکس کے پرچے میں علی ظفر کا گانا لکھ آیا۔اس میں تو حیرت والی کوئی بات نہیں اس طالب علم کو جو آتا تھا وہ اس نے پرچے میں لکھ دیا۔اعتراض تو ہمیں علی ظفر کے گانے پر ہے کہ یہ گانا یقینا اس کا تو نہیں کسی شاعر کا ہو گا یہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ قتیل شفائی بھی اسی بات پر کڑھتے تھے کہ اصل تخلیق کار پیچھے رہ جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ کہ ایک استاد نے یہ ویڈیو وائرل کی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ طالب علم سمجھتا تھا کہ پرچے دیکھنے والے اندھے ہوتے ہیں۔بات استاد کی بھی ٹھیک ہے کہ استاد کو اندھا نہیں سمجھنا چاہیے۔یہ تو وہ بتا ہی سکتا ہے کہ فزکس کے پرچے میں علی ظفر کا گایا ہوا گانا نہیں چل سکتا کہ ویسے بھی یہ اردو میں ہے انگریزی میں نہیں تو استاد جی نے بڑا کمال کر دکھایا کہ گانے اور فارمولے میں فرق کر دکھایا۔ آخر خبر یہ کہ نومولود بچوں کے اندراج میں فیصل آباد پہلے نمبر پر ہے کہ مہم کے دس روز میں نومولود پچاس ہزار بچوں کا اندراج ہوا۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ فیصل آباد کے لوگ جگتیں بہت اچھی کرتے ہیں۔کسی کو بھی نہیں بخشتے اب تو یہ ایک اور پہلو ان کا سامنے آ گیا ہے اور یہ کوئی مزاح یا مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ہم تو سمجھتے تھے کہ فیصل آباد ایشیا کا مانچسٹر ہے یعنی صنعتی شہر۔مگر نیا تعارف تو مختلف ہے شبیر حسن کا ایک خوبصورت شعر: سرنگوں عشق کے پرچم نہیں رکھے جاتے یہ چراغ ایسے کہ مدھم نہیں رکھے جاتے