ایسا لگتا ہے کہ تمامتر خوش فہمیوں کے باوجود ہم آخری سانس لیتے معاشرے کے کرم خوردہ ستون ہیں، جب معاشرے آخری سانس لیتے ہیں تو ہر سچ آف دی ریکارڈ اور ہر جھوٹ آن دی ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم سب جھوٹ کے بیوپاری ہیں اوراپنی ذاتی انا‘ مفادات اور دوسروں کو پٹخ کر خود اپنے مقاصد کی تکمیل کے سفر پر سرپٹ دوڑے جا رہے ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جھوٹ بھی بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے بولتے ہیں۔ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہمیں سچ سے ڈر لگتا ہے تو ہم چپ کیوں نہیں رہتے۔دیکھ لیں آج ابلاغ کے تمام ذرائع نے ’’خبر‘‘ کی جس طرح بے توقیری کی ہے سوشل میڈیا پر جس طرح ہر کوئی اپنے خواہش اور میلان کے مطابق خبر کو توڑ مروڑ رہا ہے جس طرح خود کو عقل کل سمجھ کر اپنے اپنے انداز سے خبر کی تشریح کر رہا ہے وہ حیران کن بھی ہے اور ہیجان انگیز بھی۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ کوئی ملک جمہوریت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا لیکن اسے ہر ملک کے خصوصی ماحول اور حالات کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔تب ہی وہ ایک ایسی متحرک جمہوریت ہو سکتی ہے جو حقیقت میں لوگوں کو با اختیار بنائے اور ایسی حکومتیں تشکیل دے جو ان کی ضروریات پوری کریں اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ جمہورویت کی ایک نقل ہے جس میں نہ توروح ہے نہ مادہ۔دنیا میں بہت سے ایسے نظام ہیں جو جمہوری کہلائے جا سکتے ہیں کسی ایک ملک کے نظام کو دوسرے میں منتقل کرنے سے کام نہیں چلتا خصوصاً جب اس میں بیرونی عنصر زیادہ ہو جیسا کہ پاکستان اور کئی دوسرے ملکوں میں کئی بار ثابت ہو چکا ہے۔ہمارا المیہ ہی شاید یہ ہے کہ 14اگست 1947ء کو پاکستان بننے کے بعد سے اب تک عملی جمہوریت نہیں آ سکی یہ ہماری تمام برائیوں کی جڑ ہے در حقیقت عوام کی حکومت ہی جمہوریت کی روح ہے۔ پاکستان کے ڈھانچے میں سیاسی طور پر سب سے بڑا سقم ہی یہ ہے کہ ہمیں ابتداء سے ایک سردارانہ اور جاگیردارانہ معاشرہ ملا۔لوگ صوبوں قبیلوں ذاتوں اور برادریوں میں منقسم ہیں اور عموماً اپنا ووٹ بھی وہ انہی دائروں میں ڈالتے ہیں الیکشن میں بیشتر جگہ پر عوام اپنے حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کرنے کے بجائے اپنے قبائل اور برادریوں کے سربراہوں کے زیر اثر جو اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ووٹ دیتے ہیں اس وجہ سے نااہلیت اور کرپشن بتدریج بڑھتی چلی گئی ہے اور اس کا نتیجہ حکومت کی خراب کارکردگی کی صورت میں نکلتا ہے۔لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جمہوریت صرف اس عمل کا نام نہیں کہ یہاں الیکشن ہو رہے ہیں۔الیکشن تو صرف جمہوریت کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔ہماری ناکارہ جمہوریت نے ملک کو بہت سے نقصانات پہنچائے ہیں۔پھر اس سے بھی خطرناک بات ہے۔کہ ہم وقتاً فوقتاً نت نئے تجربات بھی کرتے رہے ہیں ہم جس راستے پر بھی چلتے رہے اس کا سب سے بڑا نقصان مشرقی پاکستان کی علیحدگی تھی اس کی اصل وجہ کچھ اور نہیں ہمارے حکمران کلاس کے مفادات‘ ناعاقبت اندیشی اور حماقتیں تھیں ہم نے اپنی 75سالہ تاریخ میں یہ سبق بھی سیکھ لیا ہے کہ عام پاکستانی یہ یقین رکھتا ہے کہ ہمارے لئے حقیقی جمہوریت کے بغیر کوئی چارہ نہیں مسئلہ پھر بھی یہ نہیں کہ ہمارے سارے مسائل کا حل یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے لیکن ہاں قوم اور ملک کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کو چلتے رہنا چاہیے اور ساتھ ساتھ ایسا نظام بتانا اور نافذ کرنا چاہیے جس سے وہ حقیقی جمہوریت آ سکے جس کے لوگ شدید خواہش مند ہیں بنیادی سوال پھر بھی یہی ہے کہ ملک میں ہم وہ کون سا نظام چلا رہے ہیں جس سے لوگ مسائل کے گرداب میں پھنسنے کے بجائے آسودہ حال ہو سکیں دنیا میں بیشتر ممالک اور ان میں رہنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دولت کی منصفانہ تقسیم‘ لوگوں کی سماجی فلاح و بہبود تعلیم اور یکساں مواقع تک رسائی میں درحقیقت جمہوریت کا اصل حاصل ہے۔ اس لئے میری اور آپ سب کی یہی خواہش ہو گی کہ انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومتیں آنی چاہیں جو عوام کی ناامیدیوں اور خواہشات کو سمجھیں اور ان کا مداوا کریں جس نظام میں عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام نہ ہو سکے اسے آپ کیونکر جمہوریت کہہ سکتے ہیں آپ دیکھ لیں آج بحیثیت قوم جس مقام پر پہنچے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آمریت کے ساتھ ساتھ ہم جمہوریت کا بھی ذائقہ چکھتے رہے۔ پاکستان میں متعدد بار انتخابات ہوئے ہیں لیکن صرف مراعات یافتہ طبقے کے صرف ایسے افراد کامیاب ہوتے رہے ہیں یا کبھی کبھار مڈل کلاس کے لوگ بھی اوپر آئے لیکن ہماری بدبختی یہ رہی کہ ان کا اولین مقصد اپنے مفادات اور مراعات کا تھا اور تسلسل قائم رکھتا رہا۔چاہے اس سے عوام سے روگردانی کرنا پڑے یا ملک کو دائو پر لگانا پڑے اسی طرح سب اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اقتصادی ترقی ملک کی آئے کی جانب پیشقدمی کے لئے ضروری ہے اگر حکمرانوں کے تمام دعوئوں اور وعدوں کے باوجود معیار زندگی بہتر نہیں ہوتی تو یہ سب بے سود ہو گا بڑی بڑی اقتصادی کامیابیوں اور بڑے بڑے منصوبوں کا بھی اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں اگر اس کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں اگر حکومت کے سیاسی اور انتظامی اہتمام عوام کی بہتری کے لئے نہیں کئے جاتے تو اس سے عوام کی کوئی وابستگی نہیں رہے گی اگر یہ فوائد عوام تک نہیں پہنچے تو عوام کا لامحالہ اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم کتنی بُری طرح حقیقی جمہوریت کے قیام میں ناکام رہے ہیں۔ سچ پوچھیں تو پاکستان کی رنگ برنگی سیاسی تاریخ میں مارشل لاء اور جعلی جمہوریت کے مابین صحیح جمہوریت کا راستہ مختلف صورتوں میں اور مشکل رہا ہے عام طور پر نچلی سطح پر جمہوریت کا عدم وجود اور پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے والے تین اشخاص صدر وزیر اور آرمی چیف پر موثر اور متوازن روک تھام کا نہ ہونا اور دیرپا اور پائیدار جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہا ہے مجھے سیاستدانوں اور اداروں کے طرز عمل اور انداز فکر سے یوں لگتا ہے کہ ہمارے نظام کو ابھی استحکام اور صحیح جمہوریت حاصل کرنے کے لئے کافی مدت درکار ہے لیکن ہم ثابت قدمی سے ایک کے بعد دوسرا الیکشن کراتے رہیں گے تمام سیاسی جماعتیں اپنے اندر سچی جمہوریت رائج کریں گی ادارے اپنی حدود نہیں پھلانگیں گے میڈیا اپنا کام زیادہ ذمہ داری اور غیر جانبداری سے کرے گا اور عام لوگ بھی تیرا میرا کے چکر سے نکل کر یہ وطن سب کا ہے اور ہم سب نے مل کر ہی اسے آگے بڑھانا ہے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم بحرانوں میں پھنستے رہیں گے۔ہزاروں سوالات ابھرتے رہیں گے رنجشیں‘ کدورتیں اور غلط فہمیاں بڑھتی رہیں گی اختلافات دشمنیوں میں بدلتے رہیں گے اور ہم مایوسی سے وطن کی پیشانی پر چمکتے ہوئے بے شمار حساس سوالات کو تکتے رہیں گے جس کا حاصل پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔