جنازہ پڑھتے ہوئے جوچندمحلے داراوراحباب تھے دفنانے کے وقت وہ بھی نظرنہیں آرہے تھے ایک مشہور ادیب اورایک پبلشرکے علاوہ چار ملازم تھے جو قبر میں دفنانے کافرض اداکررہے تھے یہ ڈی ایچ اے لاہورکاقبرستان تھااورجس کو دفنایا جا رہا تھاوہ اُردوادب کے مایہ نازادیب عبداللہ حسین تھے جس نے بھی سنادکھ،کرب اوررنج کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا۔ عبداللہ حسین گوشہ نشین ادیب تھے۔سوشل تقاریب میں ہوتے بھی تواپنے مخصوص حلقہ احباب میں ہی کُھلتے۔ انہیں اس طرح دیکھ کر برٹرینڈرسل یاد آ جاتا تھا اسے کسی نے پوچھاکہ آپ گیٹ ٹو گیدرز میں کیوں نہیں جاتے؟رسل کا جواب تھا۔’’ان کا مصنوعی ماحول وقت کاضیاع ہوتا ہے۔سطحی گفتگو جو فہم سے خالی ہوتی ہے۔ اشرافیہ کی سطحی گفتگوسے مجھے کوفت ہوتی ہے اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے‘‘۔ عبداللہ حسین نے ایسا کچھ کیاتونہیں مگروہ گفتگو پر تنہائی کوترجیح دیتے۔ خوبصورت ناول’’اداس نسلیں‘‘ کے منفرد لکھاری نے چالیس برس برطانیہ میں گزارے۔ایک مرتبہ ان سے ایک تقریب میں پوچھاگیاکہ وہ چھ فٹ چارانچ کی جسمانی قامت کے کیوں کر ہیں؟ پلٹ کرجواب دیا ’’میں نے اپنے والدین کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ دونوں خاصے لمبے تھے‘‘۔ آدم جی ایوارڈ حاصل کرنے والے عبداللہ حسین نے اداس نسلیں، باگھ، نادار لوگ، رات اور قید جیسے شاہ کارناول لکھے۔ ’’نشیب‘‘ اور ’’فریب‘‘ افسانوں کے ایسے نمونے ہیں کہ بعض لفظوں، جملوں اور کرداروں پر پڑھنے والا کتاب کوسائیڈپررکھ کرسوچنے لگتاہے کہ اس لفظوں کے ساحرنے یہ خیال اورجملہ کہاں بیٹھ کرکس کیفیت میںلکھاہوگا۔ وہ چھ ماہ کے تھے کہ والدہ دنیا چھوڑ گئیں۔ عبداللہ کہا کرتے ’’میرے ہم جولیوںکی مائیں تھیں۔ میں اپنی ماں کی کمی محسوس کرتاتھا۔اس لیے میں بہت ہی شرمیلا بچہ بن گیا۔خودمیں مگن بچہ۔وہ ہمہ وقت ایک نادیدہ خول میں بندرہتے۔ان کے قریب رہنے والوں کے مطابق جذباتی سطح پران کے قریب ہوناخاصا مشکل تھا۔شایداس کی وجہ بچپن میں ان کااپنی ذات میں سمٹ جاناتھا۔زمانہ طالب علمی کاذکرلاتعلقی سے کرتے کہ لگتاکہ وہ اپنی نہیں کسی اورکی بات کررہے ہیں۔وہ ادیب تھے، مایہ نازادیب مگرڈگری کیمیکل انجینئرنگ کی تھی ان کے پاس ۔رفیع پیرکامیاب فلم رائٹر اور ڈرامہ نگاران کے حقیقی کزن تھے۔عبداللہ حسین کے مطابق میں نے بوریت سے تنگ آکرلکھناشروع کیا۔ ’’نہ تومیںاردوادب کے اساتذہ میں بیٹھانہ ہی ادب مجھے ورثے میںملا۔میں دائودخیل کی ایک سیمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتاتھا۔آٹھ گھنٹے کام کرتا۔ آٹھ گھنٹے سوتا۔آٹھ گھنٹے بچ جاتے۔نہ ٹی وی دلچسپ تھانہ میڈیا۔وقت گزاری کے لیے لکھناشروع کردیا۔چندابتدائی صفحات لکھے توکہانی بنناشروع ہوگئی۔کہانی نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔اُردوکی ادبی زبان کی زیادہ شُد بُد نہ تھی اس لیے چھوٹے چھوٹے جملے لکھتا۔واقعات اور ماحول کے شیش محل کو کانچ کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں سے تعمیرکرتا‘‘۔ناول میں اس قدرڈوب گئے کہ اس کے ایک کردارسے ملنے گجرات کے ایک نواحی قصبے میں پہنچ گئے۔وہ کہتے ہیں ’’اگرمیں لاہورمیں ملازمت کر رہا ہوتا تو شامیں کافی ہائوس ،تفریح یا کسی ریسٹورنٹ کی نذرہوجاتیں‘‘۔ ’’اُداس نسلیں‘‘میں تقسیم کاکرب بھی ہے، فسادات کاملال بھی۔جنگ کی شدت بھی ہے اور محبتوں کی حِدت بھی۔اُسے پڑھ کرٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس‘‘ یاد آتاہے توکبھی دوستو وِسکی کا ’’ذلتوں کے مارے لوگ ‘‘ذہن پردستک دیتا ہے۔ منٹو کا ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور خشونت سنگھ کیA train to Pakistan یاد آتی ہے۔عبداللہ حسین حقیقت نگاری کوفسانوی فسوں کارنگ دیتے ہیں۔ کرداروں کوہلکی آنچ پراپنے کردارسے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ منظرنگاری ایک الگ جہت میں ان کے ہاں نظر آتی ہے۔اس نسلیں‘‘ میں سانحہ جلیانوالہ کے پس منظرمیں موت کاایک منظر ہے ’’پھر اور گولیاں اور ایک قلابازی اوراس طرح جب وہ سرکس کے مسخرے کی طرح کرتب دکھانے کے بعد وہ زمین پر آیا توکب کامرچکاتھا۔اس کے چہرے پروہی جوش وخروش تھااوروہ بدشکل نہ ہوا تھا۔ کیونکہ اس نے موت دیکھی ہی نہ تھی۔ یہ عجیب وغریب موت تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کاجسم گرتی ہوئی لاشوں میں چھُپ گیا۔ یہ ساراقصہ چندلمحے کا تھا‘‘۔ ایک انٹرویومیں کہنے لگے ’’میری کوشش ہوتی ہے کہ میراجملہ کہانی میں کوئی اضافہ کرتا ہو۔ میں اپنے ذہن ایک مکمل تصویر بناتا ہوں اور اسے لفظوں میں کاغذ پر لکھ لیتا ہوں۔ منٹو کے ذکر پر کہنے لگے ’’منٹوکی زبان صحافیانہ تھی۔اسکی نثرمیں کئی بنیادی خامیاں تھیں۔ اس نے بڑے اعلیٰ افسانے لکھے۔اسکے سینکڑوں افسانوں میںسے درجن بھرافسانے عمدہ ہونگے ، بقیہ اس کے تخلیقی اور ادبی مرتبے سے کم تر ہیں۔ ایک مرتبہ ناول پر بات کی گئی توکہنے لگے ’’میری نظر میں قراۃ العین حیدر اُردو ادب کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں۔ افسانہ نگاری میں چیخوف کاکوئی ہم سر نہیں۔ دوستووِسکی بے مثال ادیب ہے۔ دوستووِسکی کا ناول ’’برادرز کراما زوف‘‘ میرا پسندیدہ ناول ہے۔ ایک تحریرکادرست مقام وقت ہی متعین کرتا ہے۔ اپنے فن پربات کرتے تو کہتے ’’مجھے اُردولکھنی نہیں آتی۔ میںسادہ زبان اور چھوٹے جملے لکھتا ہوں۔ تجربات، مشاہدات اور خیالات کو حقیقی انداز میں لکھتا ہوں جس سے ایک تصویر بنتی ہے۔وقت کے ساتھ ماضی کے اہم ادیبوں کی ثقیل اوربھاری بھرکم نثرکی جگہ سادہ اور حقیقی زبان لے چکی ہے‘‘۔ اپنی وفات سے چندروزقبل کہنے لگے ’’مجھے ایک افسوس ہے۔میں نے ایک بھرپورزندگی گزاری۔ شہرت کمائی۔ کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں پائیں۔ پر ایک غلطی ایسی ہے جسے میں اب درست نہیں کر سکتا۔ اسی کاافسوس ہے۔’’میں اپنے اہل خانہ کوپوری توجہ نہیں دے پایا‘‘۔ان سے کئی مرتبہ پوچھاگیاکہ وہ لندن میں کئی دہائیاں گزارکرواپس کیوں چلے آئے۔مگراسکاواضح جواب انہوںنے کبھی نہیں دیا۔ ایک دن ایک دوست سے کہنے لگے ’’آخرمیں بندے کوواپس آناہی ہوتاہے‘‘۔عبداللہ حسین نے اپنی لازوال کہانی جلاوطن میں لکھا’’جلاوطن اپنے قبیلے کی کشش سے کبھی چھٹکارانہیں پاسکتاچاہے وہ اپنے قبیلے سے مایوس ہی کیوں نہ ہوچکاہو‘‘۔ بڑی دلچسپ بات ہے کہ انہوںنے اپنی قبرکے کتبے کیلئے شعروصیت کررکھاتھا: آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر اب انہیں ڈھونڈ چراغ زیبا لیکر