سحر بن کے آنکھیں کھلیں تو حقیقت کا پورا سبق داستاں ہو گیا یہ کیا ہے محبت میں اک شخص کی، اپنا سارا سفر رائیگاں ہو گیا کہاں تک سنو گے زمیں سے زمیں تک مری داستان کمال و عروج میں پہلے حصار بدن میں رہا پھر اسیر زماں و مکاں ہو گیا کیا کروں بات ہی ایسی ہے کہ بحرطویل ہو گئی کہ دم پر جس کا دارو مدار ہے کبھی کبھی تھوڑا سا تردد بھی کرنا چاہیے۔ آپ خیال میں لائیں کہ سفر بہت لمبا تھا ہم نے کیسے کیسے حکمرانوں کا کشت کاٹا ۔ایک لمبا انتظار مگر ہوا کیا۔ سخن کی روش کو چھوڑ کر وہ بات کہ جو ہمارے موضوع سے تعلق رکھتی ہے منیر نیازی نے ایک ڈرامہ لکھا تھا ’’قصہ دو بھراواں دا‘‘ اس میں ایک شخص کسی گائوں کا قصد کرتا ہے وہ سائیکل پر ہوتا ہے راستے میں اسے ایک شخص الٹے پائوں والا نظر آتا ہے جسے دیکھ کہ وہ سائیکل بھگا دیتا ہے اسے نہر کنارے ایک شخص نظر آتا ہے وہ اسے اپنے خوف کی وجہ بتاتا ہے وہ شخص اس کے سائیکل کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے سائیکل سوار محسوس کرتا ہے کہ پیچھے بوجھ بڑھ گیا ہے وہ مڑ کر دیکھتا ہے تو وہ شخص جو پیچھے بیٹھا تھا۔اس کی ٹانگیں لمبی ہو کر پیچھے جا رہی تھیں سائیکل والا ڈر کر گر پڑتا ہے اور بھاگ اٹھتا ہے گائوں پہنچ کر وہ ایک آدمی کو ساری واردات بتاتا ہے کہ کس طرح اسے پہلے الٹے پائوں والا شخص ملا تھا اس بپتا کو سننے والا مخاطب اپنے پائوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھتا ہے کہیں اس کے پائوں ایسے تو نہیں تھے؟ سائیکل والا اس کے پائوں دیکھ کر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ میرے پیارے قارئین کہیے کیسا لگا یہ منیر نیازی کا ڈرامہ۔اصل میں یہ چھلیڈون کا گائوں تھا آپ پوچھیں گے یہ چھیلڈ کیا ہوتا ہے؟ جناب چھیلڈ وہ ہوتا ہے جو اپنی ہیت بدل سکتا ہے۔یقیناً اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمیں تو 75سالہ سفر میں اکثر چھیلڈے ہی ملے۔ مختصر یہ کہ اک تماشا لگا ہوا ہے لگتا ہے جیسے سب ایک جیسے ہیں یا سب آپس میں مل گئے ہیں۔وہ جو منیر نیازی نے کہا ’’اک دوجے دے خوف نال جڑے ہوئے نیں شہر دے مکان‘‘جو بدلنے آئے تھے وہ خود کیسے بدل گئے جو احتساب کرنے آئے تھے خود احتساب کے قابل ہو گئے۔ مزے کی بات یہ کہ جو کام کرنے والے ہیں وہ عدالت کے حکم کے باوجود بھی نہیں ہو رہے وہی کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ 1947ء سے مانگا گیا تھا۔مگر کابینہ ڈویژن کا توشہ خانہ کا دس سالہ ریکارڈ دینے سے انکار پتہ چلا کہ معاملہ حساس قرار دے دیا گیا۔ حساس تو ہے کہ اس میں کن کن پردہ نشینوں کے نام آئیں گے سب کچھ تو نیلام ہو چکا۔زحمت میں رحمت یہ ہوئی کہ عمران خان کی دشمنی میں وہ لوگ بھی زیر دام آئے‘ جو سالہا سال سے تمغے اڑاتے رہے اور کھاتے رہے وہی کہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔سراج الحق کی آواز تو سچ مچ نگارخانے میں طوطی کی آواز کی طرح ہے اس میں کیا شک ہے کہ ویڈیو لیکس کو ملا کر دیکھیں تو ہم معاشی‘ معاشرتی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکے لطف کی بات یہ کہ وزیر اعظم کے ساتھ رہنے والا افسر ہی لنکا ڈھانے والا نکلا۔مگر اس افسر کی کیا جرات کہ خود سے اتنا بڑا قدم اٹھائے کہ پوری سیاسی برادری کو ذلیل کر کے رکھ دے یہ اداروں کی جنگ تھی ابھی قیوم نظامی صاحب پوچھ رہے تھے کہ سیاسی میٹنگز میں ایک فوجی ہوتا ہے مگر فوجیوں کی میٹنگ میں سویلین کیوں نہیں۔ہے معصومانہ سوال خیر خان صاحب نے ان کے ساتھ قربت کچھ زیادہ ہی رکھی۔مجھے باقی صدیقی کا شعر یاد آ رہا ہے: اور جا جا کے تم ملو اس سے لو سلام و پیام سے بھی گئے سب اپنی اپنی زندگیوں میں لطف اٹھا رہے ہیں۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس نے کس کو این آر او دیا راز افشا کرنے والے اپنے پروفیشن میں بھی حقہ پانی بند کروا بیٹھے۔ نواز شریف بھی باہر بیٹھے ہیں اتنی دلیری بھی ان میں نہیں کہ آگر وضاحت کر سکیں وہ بھی این آر او سے ہی آئیں گے۔ جہانگیر ترین قربانی کا بکرا بنا دیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا نے سارا کٹھا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے ایک لمحے کے لئے ان لوگوں کے کردار کو آپ دیکھیں مثلاً نواز شریف صاحب فرما رہے ہیں کہ جنیوا میں سیلاب زدگان کی پکار پوری دنیا تک پہنچائیں گے۔ایک لمحے کے لئے کیا ہم سوچتے ہیں کہ محترم شہباز شریف نے اپنی جیب سے کتنی امداد کا اعلان کیا وہ تو کیا کسی نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا بلکہ ان کے نام پر اربوں ڈالر اکٹھے کرنے کے دعوے دار عملی طور پر کچھ بھی نہیں کر سکے۔وہاں وہی الخدمت جیسے ادارے ۔ آخری بات وہی کہ جو سراج الحق صاحب نے کہی ہے کہ اس شدید بحران سے نکلنے کا حل صرف انتخابات ہی ہیں مگر اس سے پہلے الیکشن ریفارمز ضروری ہیں ٹیکنو کریٹ کی حکومت کا شوشہ کوئی حل نہیں مصیبت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور خصوصی طور پر ن لیگ کو اب سنبھلنے کے لئے کچھ وقت درکار ہے اور اس سے بھی بڑی مصیبت یہ کہ اگر وقت ملتا بھی ہے تو وہ زیادہ برا وقت ہو گا اور برے وقت کو زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا یہ جو قومی سلامتی کا اجلاس طلب کیا ہے وہ اصل میں اپنی سلامتی کا یقین لینے کے لئے ہے ۔بس ایک بے برکتی ہے یہاں دل چاہتا ہے کہ حضرت علی ؓ کا ایک قول نقل کر دوں کہ دنیا کا آخری دور ایسا آئے گا جب اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا جائے گا۔کم ظرف اور کمینے عزتیں اچھالنے کو فخر کا باعث سمجھیں گے اس مقصد کے لئے ہزاروں لوگ بھرتی کئے گئے ہیں جنہوں نے گند اچھالنے کو ایک مقصد بنا رکھا ہے۔ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں اور پھر نیوٹن کے کلیے کے تحت ردعمل بھی لاتے ہیں گویا یہ گند سے ہولی کھیلتے ہیں ہولی میں نے اس لئے کہا کہ یہ ہولی مسلمانوں کا کھیل نہیں۔شہزاد احمد کا ایک شعر : ذرا سا غم ہوا اور رو دیے ہم بڑی نازک طبیعت ہو گئی ہے