انارکلی لاہور میں بم دھماکے نے ایک بار پھر پاکستان کی سلامتی کے لئے نئے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔اگرچہ اس دھماکے میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا لیکن یہ دھماکہ آئندہ آنے والے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔تین غریب لوگ جان سے گئے اور 29افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔اللہ تعالیٰ شہید ہو جانے والوں کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت یابی عطا فرمائے ۔اس دھماکے کی ذمہ داری ایک نئی تنظیم بلوچ نیشلسٹ آرمی نے قبول کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کی دیگر علیحدگی پسند تنظیموں کی طرح اس کے پیچھے بھی بھارت ہی موجود ہے۔بی جے پی کی حکومت نے دہشت گردی کو اپنی قومی پالیسی بنا لیا ہے وہ ہمسایہ ممالک میں بھی دہشت گردی کا مرتکب ہے اور بھارت کے اندر بھی ہندو توا کے نام پر باقی تمام مذاہب کے لئے زندگی مشکل کر دی ہے۔مسلمان‘سکھ‘ عیسائی سب حکومت کے اس انداز فکر سے پریشان ہیں۔ مسلمان خاص طور پر حکومت کی دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے۔ایسی اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر مسلمان کش فسادات برپا کئے جائیں گے۔بی جے پی کے علاوہ باقی سیاسی جماعتیں بھی مودی حکومت کی اس پالیسی سے نالاں ہیں اور اس پالیسی کو خود بھارت کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔بدقسمتی سے بھارتی مسلمان کوئی ایسا اتحاد تشکیل نہیں دے سکے جو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی کو لگام دے سکے۔بھارت کے بیس پچیس کروڑ مسلمان اگر مودی حکومت کے خلاف متحد ہو جائیں تو بھارتی حکومت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اور اس خطے میں ایک اور آزاد مسلمان ملک کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ۔مسلمانوں کی نسبت سکھ زیادہ متحد ہیں اور آزاد سکھ ریاست کے لئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ بھارت کے سنجیدہ ہندو لیڈر بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ اگر بھارت کے سیکولر چہرے کو اس طرح داغدار کیا گیا، تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے، جس نے دہشت گردی کے خلاف اتنی بڑی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے ۔اس وقت پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی قوتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے حفاظتی حصار کو ازسر نو منظم کریں اور دہشت گردی کی اس نئی لہر کو آغاز ہی سے کچل کے رکھ دیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں علاقائی پولیس اور مقامی حکومتیں بڑا موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مقامی باشندوں کو خوب پہچانتے ہیں اور کسی بھی غیر مقامی فرد کی نقل و حرکت کا بڑی کامیابی سے پتہ لگا سکتی ہیں۔بدقسمتی سے ہماری کسی بھی حکومت نے مقامی حکومتوں کے قیام کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔صرف جنرل پرویز مشرف نے ان حکومتوں کو ترجیح دی تھی اور اس کے نہایت مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔اسی طرح پولیس کی تنظیم نو پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ موجودہ حکومت تو جس رفتار سے پولیس اہلکاروں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کرتی ہے۔یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ پولیس والے بھی اپنے ذمہ داری کے علاقے سے شناسا نہیں ہو سکتے، اپنی پوسٹنگ کے خوف سے وہ اپنی طاقت بھی پوری طرح استعمال نہیں کر سکتے۔دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے کے لئے ضروری ہے کہ قومی سلامتی کے تمام ادارے ایک مربوط نظام سے منسلک ہوں اور سائنسی بنیاد پر Real Time Intelligence ایک دوسرے سے شیئر کی جائے تاکہ دہشت گردوں کو بھاگنے کا موقع نہ مل سکے۔ ہمیں دہشت گردوں سے دو ہاتھ آگے رہنا پڑے گا اور اپنی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے ان پر ہاتھ ڈالنا پڑے گا۔آئی ایس آئی‘آئی بی‘ ایم آئی اور پولیس کی سپیشل برانچ کو مربوط کارروائیاں کرنی پڑیں گی۔ پاکستان کے عام لوگوں کی تربیت بھی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کی فوری اطلاع قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو دے سکیں۔تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پوری قوم کو دہشت گردوں کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کی پشت بانی کرنی ہو گی تاکہ اس قومی نقصان سے بچا جا سکے۔ حیرت کی بات ہے تقریباً تین چوتھائی صدی گزرنے کے باوجود پاکستان ایک مربوط نیشنل سکیورٹی پالیسی سے محروم تھا۔پاکستان کی تحریم شدہ ڈیفنس پالیسی بنانے کا کریڈٹ بھی تین ماہ کی قلیل مدت وزیر اعظم رہنے والے معین قریشی کے حصے میں آیا تھا، اس سے پہلے دو بڑی جنگیں ہم نے بغیر کسی ڈیفنس پالیسی کے لڑیں اب عمران خان کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ایک مربوط نیشنل سکیورٹی پالیسی ترتیب دی گئی ہے اور اس کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔اس سے پہلے تو فوج کو ہی نیشنل سکیورٹی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے، اب عام آدمی کی دیکھ بھال اس کی ذاتی سکیورٹی ‘اس کی خوراک کی سکیورٹی اور اس کی معاشی صورت حال کو اس پالیسی کا محور بنایا گیا ہے۔ہم یہ بات بڑی دیر سے سمجھے ہیں کہ صرف مضبوط افواج ہی کسی ملک کی سکیورٹی کی ضمانت نہیں ہو سکتیں۔سب سے ضروری ملک کی معیشت ہے جس کے بغیر فوج بھی مضبوط نہیں ہو سکتی اور نہ ہی آزاد خارجہ پالیسی ترتیب دی جا سکتی ہے۔پاکستان میں ہر دوسری چیز کی طرح پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قومی سلامتی پالیسی کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ہر حکومت اس میں بہتری پیدا کر سکتی ہے اور نئے حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کی جا سکتی ہے ۔غنیمت یہ ہے کہ پچہتر سال بعد ایک پالیسی بن گئی ہے اور اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔تاہم اس پالیسی کو روبہ عمل لانے کے لئے اور بہت سے امور بھی ضروری ہیں۔اس پالیسی کے موثر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں عدل کا نظام بحال ہو اور پاکستان کی عدالتیں مختصر وقت میں صائب فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھیں۔اس کے لئے حکومت نے فوجداری قوانین کو تبدیل کرنے کی طرف بھی قدم اٹھایا ہے دو تین صدی پرانے فوجداری قوانین کو بدلنا اشد ضروری ہے۔ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر مقدمے کے فیصلے تک ہر مرحلے کی جانچ پڑتال اور ذمہ داری کا تعین ضروری ہے۔وزیر قانون کے مطابق فوجداری مقدمات کے لئے 9ماہ کاوقت مقرر ہو گا اور کوئی ماتحت جج 9ماہ میں مقدمے کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گا تو اسے اپنی متعلقہ ہائی کورٹ کو اس کی وجوہات بتانا ہوں گی۔ماتحت عدالتوں کو ان کی غیر ضروری مصروفیات سے بھی ریلیف دیا جائے گا تاکہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اہم مقدمات کی سماعت میں صرف کر سکیں۔ایف آئی آر کے اندراج کے لئے ججز کو جو مقدمات سننے پڑتے ہیں، ان کی ذمہ داری متعلقہ ایس پی پر ہو گی۔ایس ایچ اوز کی تعلیم و تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی اور ایس ایچ اوز کے لئے بی اے تک تعلیم ضروری ہو گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت اہم اصلاحات ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے ان اصلاحات کا آغاز کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔بہرحال دیر آید درست آید۔اب بھی اگر صدق دل سے یہ اصلاحات نافذ کی جائیں تو شاید اس کا کچھ مثبت اثر ہمارے حالات پر پڑے۔پی ٹی آئی کو غیر ضروری سروے کروانے سے گریز کرنا چاہیے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینئن نے عثمان بزدار کو جو اول پوزیشن عطا کی ہے یہ عوام کے لئے تفنن طبع کا سامان تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے حقائق بدل نہیں سکتے۔اگر عمران خان خود میرٹ کی پالیسی پر عمل نہیں کریں گے تو اس کی توقع اپنے وزراء اور بیورو کریسی سے رکھنا لیڈر شپ کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہو گی۔عوامی سروے کا نتیجہ کے پی کے بلدیاتی انتخابات اور کینٹ بورڈ کے الیکشن دے چکے ہیں۔