دعا کرو میں تمہارے حصار سے نکلوں رہ جمال کے زریں غبار سے نکلوں یہ جسم و جاں تو کسی نشہ نمود میں ہیں خزاں کو قید کروں تو بہار سے نکلوں ایک شعر اور دیکھیے کہ میں کائنات سے کرتا ہوں زندگی کو کشید کہ اوس بن کے بُن خار خار سے نکلوں۔یہ تمہید مجھے اس لئے باندھنا پڑی کہ کسی نے اقبال ساجد کی ایک غزل گائی تو آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ گھوم گیا جب اقبال ساجد ادبی حلقوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ مشہور یہی تھا کہ وہ نونہالات کو غزل کہہ کر دیتے ہیں اور روزگار پیدا کرتے ہیں مگر آج تو ان کی جدت پر بات ہو گی۔ اگرچہ اس زمانے میں شہزاد احمد کو بھی جدید غزل کا زمانہ کہا جاتا تھا۔دعویٰ اس کا اقبال ساجد بھی رکھتے تھے۔ معزز قارئین! آج میں سیاست کو نہیں چھوڑں گا کہ ادبی کالم کو ہی آگے پڑھائوں گا جس غزل کا تذکرہ میں کرنے جا رہا ہوں اس کی تاریخ تک مجھے معلوم ہے کہ اس کے مطلع میں کچھ نامور آئے تھے: نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں فراق و فیض و ندیم و فراز کچھ بھی نہیں ہمارے ایک دوست حنیف صاحب ہیں جو لکشمی چوک میں اپنا کاروبار زندگی چلاتے ہیں اور شاعروں ادیبوں کی بہت آئو بھگت کرتے ہیں اکثر شاعر ان کے پاس بیٹھنا پسند کرتے ہیں وہی فراز اور اقبال ساجد کا آمنا سامنا ہو گیا اور فراز صاحب نے کہا اوئے میں نے تمہاری غزل دیکھی ہے تم نے مجھے بھی رگڑ دیا ؟ اقبال ساجد انتہائی منہ پھٹ تھا بولا ابے تو تو قافیے کی مجبوری ہے مطلع میں آ گیا وگرنہ تو فراق و فیض و ندیم کی صف میں کہاں بہرحال فراز کے حصے میں شہرت تو بہت آئی مگر منیر نیازی جیسی گھمبیرتا اور تازگی کم کم ہی کسی کو نصیب ہوئی متذکرہ غزل کے دو شعر: نہ ان کا لہجہ نیا نہ ان کی سوچ نئی یہ فکرگر نظریہ طراز کچھ بھی نہیں غزل نکلے جو فقط اس لئے کہ گائی جائے مری نظر میں تو وہ شعر باز کچھ بھی نہیں مجھے تو خوشی اس بات سے بھی ہوئی کہ اقبال ساجد لفظ کی صحت و تلفظ کا بھی خیال رکھتے تھے وگرنہ نظریہ باندھنا آسان اس قافیہ آرائی میں ذرا پروین شاکر کو دیکھیے۔ ان سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں وہ جو آئیں تو بہت سخت رویہ کر لیں ایک ہی بار یہ گھر راکھ ہو جاں تو چھوٹے آگ کم ہے تو ہوا اور مہیا کر لیں یہ آسان نہیں ہوتا کہ غلط عام کچھ اور ہو جاتا ہے کوئی پوچھے کہ زبان کیا ہے تیری تو پروین وقت ایسا ہے کہ بہتر ہے تقیہ کر لیں آپ نے نوٹ کیا کہ زباں کے ساتھ شاعر کا معاشرہ اور معاشرت جھلکتی ہے اور حالات بھی۔ بات چل رہی ہے تو اقبال ساجد کی تقریباً روز ہی ٹی ہائوس میں ان سے ملاقات ہو جاتی کبھی دارو کے لئے پیسے مانگتے تو میں کہتا آپ ٹی ہائوس میں کھانے کا آرڈر دیں اور بل میں ادا کر دوں گا مگر وہ اس پیشکش کو ٹھکرا دیتے اور تھوڑا سا مسکرا دیتے کبھی اولڈ کیمپس کی اساطیری کنٹین پر ہم بیٹھے تو وہاں رونق لگ جاتی طبیعت لااوبالی تھی کہیں سے پیسے ملتے تو احمد ندیم قاسمی ان کی بیوی کے سپرد کر کے آتے پہلا مشاعرہ بھی ان کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی کا پڑھا تو ان کا ایک شعر اب بھی حافظے میں ہے: پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں کیا ان کی معاصرانہ چشمک بھی چلتی رہتی تھی وہ جو گانے والی غزلوں کا اشارہ کیا ہے میرے ذھن میں ناصر کاظمی آئے کہ ان دنوں ان کی ڈیمانڈ حد سے زیادہ تھی ہر زبان پر یہ شعر: دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا وہ ایک سنہرہ دور تھا ناصر کاظمی کے ساتھ انتظار اور احمد مشتاق ہوا کرتے تھے پھر احمد مشتاق امریکہ چلے گئے وہ بھی کیا شاعر تھے کم گو مگر دل میں اتر جانے والے: مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقین رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا بہرحال بات تو اقبال ساجد کی غزل سے چلی تھی کیا کیا کمال شعر اس نے کہہ رکھے تھے کوئی اچھا شعر آتا تو کئی کئی دن ٹی ہائوس کی فضائوں میں گردش کرتا: وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا کردار خود ابھرکے کہانی میں آئے گا ان پر ہمارے دوست ڈاکٹر جواز جعفری نے تھیسز بھی کیا تھا اور ایک شعر تو ہمارے ہوتے ہوئے اقبال ساجد نے بار بار سنایا اور داد پائی محترم اسرار زیدی ٹی ہائوس کے سامنے والی میز پر بیٹھتے تھے اور منڈلی لگتی تھی وہ شعر تھا: کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا ٭٭٭٭٭