چاند دیکھا ہے تو حسرت ر بھی نکالی جائے چاندنی جتنی بھی ممکن ہو چرا لی جائے یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے دیکھا جائے تو واقعتاً انسان کے اندر روح ہے اور جذبہ ہی تو ہے جیسے چاند کے اندر چاندنی، سورج کی تمازت اور سمندر کی کناروں سے سر ٹپکتی موجیں۔ یہ تو صرف بات کرنے کا بہانہ تھا ورنہ چاند ہمارے بس میں ہے اور نہ سمندر،مگر چاند میں کوئی بات ہے ضرور کہ سمندر کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس میں مدوجزر پیدا کر دیتا ہے اسی طرح وہ چکور کا بھی مسئلہ ہے اور ہمارا بھی کہ روزہ بھی اس کو دیکھ کر بنتا ہے اور عید بھی۔شاید ہمیشہ ہمارے ساتھ آنکھ مچولی ضرور کھیلتا ہے اس پر ضرور بات کریں گے مگر اس سے پہلے ایک بڑی خبر جو ہم کو کھینچ رہی ہے کہ پنجاب اسمبلی الیکشن موخر ہو کر 8اکتوبر کو چلے گئے ہیں،8اکتوبر سے ہمارا خیال ایک پرانے واقعہ کی طرف چلا گیا کہ گوجرانوالہ کے ایک نامور وزیر کسی جگہ تقریر کرنے گئے تو انہوں نے باقاعدہ بوٹی لگائی یعنی جو انہیں لکھ کر دیا ہوا تھا پڑھنا شروع کر دیا ایک جگہ 12اکتوبر لکھا ہو تھا تو پتہ نہیں انہوں نے کیوں یا کیسے ایسے پڑھ لیا کہ ہنسی کے غبارے چھوٹ گئے اور ساتھ کھڑے لوگ بھی حیران رہ گئے وہ بارہ اکتوبر بارہ کبوتر پڑھ گئ۔بس ہمیں بس ایسے لگا کہ یہ اکتوبر نہیں بلکہ کبوتر ہے جو کسی نے ہیٹ سے نکالا ہے، خیر ہیٹ تو کبھی کبھی شہباز شریف صاحب بھی پہنتے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یونہی بات سے بات نکالے چلا جا رہا ہوں تو جناب لسی بھی ایسے ہی ۔۔۔۔۔جتنی مرضی بڑھا لیں کہ یہ لڑائی کی طرح ہی تو ہوتی ہے۔ آپ مان لیں کہ 8مارچ کے شیڈول پر شفاف اور آزادانہ انتخابات ممکن نہیں تھے اسی لئے تو حالات کا جائزہ لیا گیا اور پوری حکومتی مشینری اسی کام پر لگی رہی کہ کس طرح یہ انتخابات 8اکتوبر پر جا سکتے ہیں جواب پہلے معلوم ہو تو سوال آسان ہو جاتا ہے پھر ایک محاورہ سامنے آ کر باں باں کرنے لگا یا منمنانے لگا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی میں اس کا اپنا یار جمشید مسرور یاد آیا: ضبط کرتے تو لب یار کو وا ہونا تھا حرف انکار سہی کچھ تو ادا ہونا تھا تو صاحبو!یہ تو تھا سیاست کا حال اور اب چاند پر دوبارہ اترتے ہیں کہ اس نے ہمیں اب کے بھی خراب کیا۔عشاء کی نماز کے بعد ہم کچھ دیر بیٹھے رہے اور پھر تنگ آ کر وتر پڑھ لئے یہ کہیں سے خیر کی خبر نہیں آ رہی۔کچھ تو موسم ایسا تھا اور کچھ چاند نے بھی اوجھل رہنا پسند کیا تھا مگر واپس آئے کہ کچھ رمضان شریف سے پہلے کرنے والے کام جو رہ گئے ہیں کر لیں کہ ابھی ہم آزاد ہیں مگر یہ کیا ہوا ہمارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے کہ اچانک مسجد سے اعلان ہو گیا کہ تراویح کے لئے آ جائیں۔ کچھ ایسا عید پر ہوتا تھا اب کے رمضان پر ہو گیا اب کے تو پوپلزئی والا معاملہ بھی نہیں ہو۔ چاند سے ہمیں فواد چوہدری بھی یاد آئے۔ وہ مولانا منیب الرحمن سے بھی ٹکرا گئے۔ویسے بھی چاند دیکھنا ایک بہت پیارا کام ہوا کرتا تھا۔بڑے بوڑھے ہی نہیں بچے بھی چاند دیکھ کر خوش ہوتے دعا مانگتے۔ایک دوسرے کو آغاز رمضان کی مبارک دیتے۔یہ رمضان کا چاند ہو تو یقینا عید کا چاند بھی نہ ہو۔محاورہ تو یہی بنا کہ یار تم عید کے چاند ہو گئے ہو ۔اب ہمیں تو رمضان کے چاند پر بھی وہی انتظار کرنا پڑا۔ بہرحال الحمد للہ ہم نے پوری تراویح پڑھیں لوگ جوق در جوق گھروں سے نکل آئے، ظاہر ہے یہ مہینہ برکتیں اور رحمتیں لوٹنے والا ہے۔ہر عبادت کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایک بات اور بتاتا چلوں کہ رات گئے گھر والوں نے کہا کہ آٹا نہیں ہے وگرنہ بازار کے پراٹھے کھانا پڑیں گے خوش قسمتی سے کچھ دکانیں کھلی تھیں 5کلو کا چکی آٹا ساڑھے آٹھ سو روپے کا ملا گو یہ چینی سے مہنگا ہو چکا ہے دکھ اس پر ہوتا ہے کہ اس آٹے پر لوگ مرنے لگے ہیں مفت آٹا لینے کی کوشش میں دو لوگ زندگی ہار چکے۔ مفت آفا دینا یا لنگر کھولنا کوئی حل نہیں مستقل بنیادوں پر کوئی کام کیا جائے۔مفت آٹا تو لنگر کھولنے سے زیادہ اذیت ناک ہوا۔عارف پروہنا نے کہا تھا کہ یہی عوامی زبان ہے: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجناں دا میل وی مہنگا کچھ اور باتیں بھی کرنے والی تھیں کہ جب میں لکھ رہا ہوں 23مارچ ہے جسے منایا جا رہا ہے مگراور بات زلزلہ کی تھی کہ کل دو مرتبہ زلزلہ آیا لوگ کلمہ پڑھتے ہوئے گھروں سے نکل آئے ظاہر ذھن میں ترکی اور شام کا زلزلہ ابھی تازہ ہے کہ جس میں بے تحاشہ نقصان ہوا ہے سید ضیاء حسین نے دو اشعار بھیجے: جب خود کو بڑا جاننے لگتے ہیں کبھی ہم وہ آکے بتاتا ہے ہمیں ذات ہماری دھرتی کو جو تھوڑا سا ہلاتا ہے کبھی وہ یوں یاد دلاتا ہے وہ اوقات ہماری کیا کیا جائے ۔ ہم کیا ہماری حیثیت کیا بس یہی کہ اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں وہ اصل میں تو پیار کرنے والا ہے اپنی مخلوق سے، صد شکر کہ اس نے ہمیں ماہ رمضان عطا کیا کہ مانگ لو جو مانگنا ہے اس کے سامنے بس جھولی پھیلانے کی دیر ایک سکینڈ نہیں لگاتا معاف کرنے میں۔آخری بات یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ قرآن پڑھیں اور چاہے ایک دن میں ایک آیت پڑھیں مگر اسے سمجھ کر پڑھیں وہ آیت آپ ایک جہان آشکار کر دے گی جس تحریر سے آپ کو سچی محبت ہو تو اسے سمجھنے کی آپ کوشش تو کرتے ہیں ہمارے رب کی بات ہمارے لئے ے تو ہم اسے کیوں سمجھنا نہیں چاہتے۔ذرا سوچئے گا سلامت رہیں رمضان مبارک۔