احتساب ہی ان کا نعرہ تھا اور احتساب ہی ان کا نصب العین۔ حیرت کی بات ہے کہ عمران خان جو تئیس سالہ جدوجہد کا زعم رکھتے ہیں اور آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہیں‘ ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ اقتدار گزارنے کے بعد ہی یہ جان سکے کہ وہ احتساب کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور ان کی احتساب کی ٹیم ناکارہ ہے۔ شہزاد اکبر ان کے قریبی ترین رفقائے کار میں سے تھے اور طاقتور ترین شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ پی ٹی آئی کے وزراء ان سے خوف کھاتے تھے اور ان کے خلاف ایک لفظ بھی بولنے سے گریز کرتے تھے۔ اب جبکہ وہ فارغ ہو چکے ہیں اس کے باوجود پی ٹی آئی کے وزرا ء ان کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ وزیر اطلاعات نے تو اپنی پریس بریفنگ میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کو استعفیٰ دینے کا نہیں کہا گیا بلکہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کوئی اور ذمہ داری ملنا بھی قرین قیاس ہے۔ حالانکہ اب یہ بات زبان زدعام ہے کہ انہیں احتساب میں بری طرح ناکام ہونے کی وجہ سے نکالا گیا ہے۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود کسی بھی بڑے سیاستدان کا محاسبہ نہیں کیا جا سکا۔ جنہیں وزیراعظم کرپٹ ترین لیڈر کہتے ہیں، وہ دندناتے پھرتے ہیں اور اب بھی دھیلے کی کرپشن نہ کرنے کے دعویدار ہیں۔ اب تو وہ وزیراعظم کو کرپٹ ترین ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں اور ان کی ترجمان وزیراعظم کے بارے میں وہ زبان استعمال کر رہی ہیں کہ الا مان والحفیظ۔ سنجیدہ تجزیہ کار اب بھی عمران خان کو ذاتی طور پر ایک ایماندار شخص مانتے ہیں۔ البتہ ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے دور اقتدار میں کرپشن کا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ یقینا درست نہیں ہے۔ آٹا‘ چینی اور دوائیوں کے سکینڈل تو بالکل تازہ قصے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ کسی بھی سکینڈل میں ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی کو سزا ملی ہے۔ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پر تعینات کردینا ہی پی ٹی آئی کا طریقہ کار رہا ہے۔ شہزاد اکبر نے پی ٹی آئی کو ایک بہت بڑا سیاسی نقصان جو پہنچایا ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی موثر ترین شخصیت جہانگیر ترین کو متنازعہ بنا کر عمران خان کو ان سے بد دل کر دیا ہے۔ ان کے خلاف بھی کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آ سکا اور خود وزیراعظم نے یہ مانا ہے کہ شوگر انڈسٹری میں شفاف ترین کاروبار جہانگیر ترین کا ہے۔ اس کے باوجود وہ لوگ جن کو وزیراعظم کے کان دن رات میسر تھے وزیراعظم کو جہانگیر ترین سے دور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی طرح ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کی سازش کا شکار ہوئیں۔ فردوس عاشق اعوان کے زمانے میں کم از کم ن لیگ کی ترجمان خواتین کو اس بدزبانی کی جرأت نہیں ہوتی تھی، جس کی وہ آج کل مرتکب ہورہی ہیں۔ شہزاد اکبر اور ان کے ساتھیوں نے نادانستہ طور پر وزیراعظم کی سیاسی طاقت کو کم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہیں۔ شہزاد اکبر چونکہ غیر سیاسی ذہن کے مالک تھے، اس لیے وہ سیاست کی باریکیاں سمجھنے سے قاصر تھے۔ شہزاد اکبر کے لیے بھی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ وہ وزیراعظم سے اپنی مرضی کے لوگوں کی پوسٹنگ ٹرانسفر کرواتے تھے جوکہ یہ عام طور پر میرٹ کے خلاف ہوتی تھیں۔ جن سیاسی لوگوں کو شہزاد اکبر نے اقتدار کے ایوانوں سے باہر کیا ان کے خلاف بھی وہ کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دے سکے اور کسی کو بھی سزا نہیں دلوا سکے۔ پاکستان کے تجربہ کار سیاستدان چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے غیر سیاسی مشیروں سے بچ کر رہیں۔ جب چودھری شجاعت حسین جیسا زیرک سیاستدان یہ مشورہ دیتا ہے تو اس کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے۔ اس سے پہلے زلفی بخاری اور ندیم بابر بھی وزیراعظم کے اعتماد پر پورے نہیں اترے۔ شہزاد اکبر کا عہدے سے ہٹایا جانا Tip of the iceberg ہے۔ وہ کیوں اس کا فائدہ نہیں اٹھاتے اور اپنے مشیروں وزیروں کے بارے میں پوری طرح باخبر نہیں رہتے۔سیاسی حرکیات سے بے خبر وزیر خزانہ نے آج یہ فرمایا ہے کہ ٹرانسپرنسی کی فہرست میں تنزلی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ نے پی ٹی آئی کی حکومت کو بہت بڑا جھٹکا دیا ہے۔ پاکستان کا سارا میڈیا وزیراعظم کی پرانی تقریریں عوام کو دکھا رہا ہے جس میں وزیراعظم اسی ادارے کی رپورٹس کی بنیاد پر اس وقت کی حکومت کو کرپٹ ترین قرار دیتے تھے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس وقت تو یہ ادارہ درست رپورٹ دیتا تھا اور آج یہ یکسر غلط رپورٹ دے رہا ہے۔ ان رپورٹس کو جھٹلانے کی بجائے ان پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے اور حقیقت میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے اسباب کی ضرورت ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی تک حکومتی سطح پر اس رپورٹ کی روشنی میں نہ کوئی سنجیدہ غور و فکر کیا گیا ہے اور نہ ہی کرپشن کے اسباب کے لیے کوئی اقدام اٹھایا گیا ہے۔ یہاں عمل کی ضرورت ہے وہاں تقریروں سے کام چلایا جارہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس رپورٹ کی موجودگی میں بھی وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا وعدہ نوے دن میں پورا کردیا گیا تھا۔ غلطی تباہ نہیں کرتی لیکن غلطی پراسرار تباہ کن ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کے بڑے محاذ پر ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن قانون شکنی کے تمام واقعات بھی روز افزوں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں ابھی تک کسی بھی بہیمانہ جرم میں سزا نہیں دی جا سکی۔ خاص طور پر وزیراعظم نے جن واقعات کا نوٹس لیا ان میں کارکردگی کی رفتار نہایت مایوس کن ہے۔ نور مقدم کیس میں ایسا مجرم کہ اس کی دولت اثر دکھانا شروع ہو گئی ہے۔ ملزم کے لیے گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ایک ایسا کیس جس میں ملک کا وزیراعظم ذاتی طور پر دلچسپی لے اور پھر بھی سرکاری اہلکار یہ جرأت کریں کہ وہ کبھی تو ملزم کو فاترالعقل ثابت کرنے کی کوشش کریں اور کبھی ایسے جوابات دیں کہ عزم کی پتلون پہ خون کا کوئی دھبہ نہیں ملا۔ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کروہو کہ کرامات کروہو یہ صرف وزیراعظم کے لیے سوچنے کا مقام نہیں ہے بلکہ اس میں پولیس کے اعلیٰ ترین افسر اور دیگر حکام بھی شامل ہیں۔ اگر ان اعلیٰ حکام کی ناک کے نیچے رشوت کا کاروبار چل رہا ہے۔ تو یا تو وہ نہایت نالائق ہیں اور یا شریک جرم۔اسی طرح عثمان مرزا والے کیس میں مدعی ہی ملزم کو پہچاننے سے انکاری ہیں۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشرتی انحطاط کا ثبوت ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام قانون کی بجائے مجرموں سے زیادہ خائف ہے۔ جناب عمران خان نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ غریب کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اوپر والے طبقے کو قانون کے نیچے لائیں گے لیکن اس طرح کے چھوٹے چھوٹے واقعات ان کے دعوے کی تکذیب کرتے نظر آتے ہیں اگر عوام کو قانون کی طاقت نظر آئے تو وہ کبھی بھی اپنی غیرت نفس کا سمجھوتہ نہ کریں۔وزیراعظم کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت۔ عمران خان نے ساڑھے تین سال لیے کہ وہ شہزاد اکبر کے فسوں سے نکل سکیں۔ اب انہیں ایک اور سنڈروم سے بھی نکلنا ہو گا اور میرٹ پر فیصلے کرنا ہوں گے۔ لاہور میں کینٹ بورڈ کے الیکشن اور کے پی کے بلدیاتی انتخابات کیا وزیراعظم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔