Common frontend top

احسان الرحمٰن


’’یثرب ،مدینہ اور سویڈن‘‘


لکھنے کے لئے بہت کچھ ہے نئے برس میں داخل ہو کر زراپیچھے پلٹ کر دیکھنے پراپنے پاکستان اور آس پاس بہت کچھ ملتا ہے لیکن میں یہ سب چھوڑ چھاڑ کر آپکو شمالی یورپ کے پینتالیس لاکھ مربع کلومیٹر پرپھیلے ہوئے ملک سویڈن لئے چلتا ہوں جہاںایک کروڑ تیس لاکھ آسودہ حال انسان عزت اور وقار کے ساتھ سانس لیتے ہیں ،دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں اگر کہیں فلاحی ریاست کی مثال دی جائے تو پروجیکٹر پر سویڈن کا نام پہلے تین ممالک میں ہوتا ہے،شدیدسرد موسم کے اس ملک میں درجہ ء حرارت ایسے نیچے
هفته 04 جنوری 2020ء مزید پڑھیے

’’ایک فوجی بھائی کا شکوہ‘‘

اتوار 29 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
بھارتی ریاست جھاڑ کھنڈ کے انتخابات کے نتائج پر سیاسی پنڈت حیران ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ہندو توا کی ہوا اتنی جلدی کیسے اکھڑنے لگی ،الیکشن میںبھارتی ووٹروں نے وفاق میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاستی انتخابات کے دنگل میں دھوبی پٹکا مار کر چاروں شانے چت کردیا ہے ، میں ان حیران کن نتائج کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ پاس رکھے فون نے بجنا شروع کر دیا کال دیکھی تو باسط صاحب کی تھی فون اٹھایا کال وصول کی سلام کلام کی رسمی سی گفتگو کے بعد میں ابھی موسم کے تیور پر بات کرناہی
مزید پڑھیے


’’نظریہ ضرورت بمقابلہ نظریہ بغض؟‘‘

جمعه 20 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
تیئس اکتوبر 1954ء کا دن تھا کراچی کے ہوائی اڈے پر بظاہر سب کچھ پرسکون تھا لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی غیر معمولی موجودگی سب ہی کو چونکا رہی تھی کراچی کے نواح میں واقع ہوائی اڈے پر فوج کی موجودگی بھی خاصی معنی خیز تھی ایسے میںکچھ دیر میں فضا میں ایک بڑا سا طیارہ ہوائی اڈے کے گردچکر لگاتا ہے اور پھر غوطہ زن ہو کر رن وے کی جانب تیزی سے جھکتا چلا جاتا ہے ،یہ وزیر اعظم پاکستان محمد علی بوگرہ کا جہاز تھا جو امریکہ کا
مزید پڑھیے


’’بددعاؤں کاتعاقب‘‘

پیر 16 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
میں نے سیل فون تو اٹھا لیا لیکن میری انگلیاں بے جان سی ہوچکی تھیں مجھ میں سکت نہ تھی کہ میں سیل فون کے آٹھ دس بٹن دبا کر اس پاکستان سے وہاں کال کرتا جو کبھی ہمارا نصف تھا جو کبھی مشرقی پاکستان تھا اور ہمت کر بھی لیتا تو غلیظ گندے مہاجر کیمپ کی جھگی میں وطن واپسی کی امید پر اڑتالیس برسوں سے زندہ کسی ’’اٹکے بوڑا پاکستانی‘‘ سے کیسے بات کرتااور کیا بات کرتا ؟ وہ یہ نہ کہتے کہ ہمارے زخموں پر زخم چھڑکنے کے لئے کیوں رابطہ کرتے ہو؟ پوری قوم ہمیں
مزید پڑھیے


’’سی پیک اور قومی بیماری‘‘

بدھ 11 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
دنیا تبدیلیوں کی زد میں تھی،انگریزوں کا یونین جیک تہہ کیا جارہا تھااور ملکہ برطانیہ کی سلطنت سکڑ سمٹ چکی تھی۔ اس منظرنامے میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ ایک بڑے خطے پر آباد چین کوکوئی خاطر میں لانے کو تیار نہ تھا،1947ء میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور دو برس بعد اقتدار کے لئے خانہ جنگیوں میں الجھے چین نے بھی یہ خونیں ریشمی ڈوریں توڑ ڈالیں یہ وہ وقت تھا جب دنیا امریکہ اور سوویت یونین میں بٹ رہی تھی ،نصف دنیا پر سرخ پھریرے لہرانے لگے تھے۔ 1949ء میںچین بھی اسی فہرست میں شامل ہو
مزید پڑھیے



’’چاہ بہار سے عرب بہار تک‘‘

هفته 07 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
سچ پوچھیں تو وہ منظر مجھے بھلا لگا تھامجھے ان میں اپنا آپ دکھائی دیا،جوش سے تمتماتے چہرے،سب کچھ بدل دینے کا عزم لئے روشن آنکھیں اوربلند لہجہ ۔۔۔ترشی ہوئی داڑھی والا لڑکا جب دف نما طبوقے کی تھاپ اور ایک ردھم سے بجنے والی تالیوں میں آسمان کی جانب انگشت شہادت بلند کرکے لال لال لہرانے کی بات کرتا تواچھا لگتا،ستواں ناک اور گندمی رنگ والی لڑکی نے بھی اس نوجوان کاخوب ساتھ دیا ،اسکا نعرہء مستانہ بلندکرنے کا انداز بھی زبردست تھا اورخاص کر جب جھومتے جھامتے اسکے پاس نعروں کا کوٹہ ختم ہوجاتا اور وہ ساتھ کھڑے
مزید پڑھیے


’’بے نام مسافت‘‘

اتوار 01 دسمبر 2019ء
احسان الرحمٰن
اسلام آباد کے دھرنے نے سرد ہوتے موسم میں سیاسی درجہ ء حرارت خوب بڑھا اور کشمیر ہائی وے پر مولانا کے چاہنے والوں نے ماحول بنارکھا تھاخیرتھی کہ مولانا کے کسی سخت گیر مہتمم کے لب و لہجے اورمحمود خان اچکزئی کی موجودگی کے باوجود سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اسلام آباد کے اخبار نویس خبروں کی بو سونگھتے پھر رہے تھے رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد رہنماؤں کے سیل فون خبری کھوجیوں کی کالز کی گھنٹیوں سے بجتے چلے جاتے تھے ،سب یہی جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہوا اور کیا ہونے جارہا ہے ؟
مزید پڑھیے








اہم خبریں