Common frontend top

احسان الرحمٰن


’’ ہاکی ختم کردیں‘‘


شائد کیا یقینامیں ہاکی کی اسیر رہنے والی آخری پاکستانی پیڑھی سے ہوں،میر ی یاداشت نے اب تک ہاکی کے بے بددل کمنٹیٹر ایس ایم نقی کی سمیع اللہ ،کلیم اللہ کے ناموں کی گردان محفوظ کررکھی ہے ایس ایم نقی جوش سے بھری آواز میں کہتے ’’گیند سمیع اللہ کے پاس۔۔انہوںنے ایک کھلاڑی کو ڈاج دیا آگے بڑھے بھارتی کپتان ان سے گیند چھینے کے لئے سامنے آئے انہوں نے کلیم اللہ کو پاس دے دیا کلیم اللہ تیز ی آگے بڑھے بھارتی کھلاڑی سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ ۔۔۔انہوںنے ایک کو ڈاج دی اور گیند
جمعرات 01 اکتوبر 2020ء مزید پڑھیے

’’ کھبے کیوں نہ بولے ‘‘

اتوار 27  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
یہ 2015ء کی بات ہے جب شہداد پور کے چھوٹے سے گاؤں تاجن ڈاھری میںایک پروفیسر کی زمین پر کھیتی باڑی کرنے والے ہندو خاندان نے ہجرت کا فیصلہ کیا،بھیل برادری سے تعلق رکھنے والے بڈھا بھیل کے اس ہاری خاندان کا خیال تھا کہ دیوی دیوتاؤں کی زمین ان کے سارے دکھ درد دور کردے گی آخر کو ہندوستان ان کا اپنا ’’ہندواستھان‘‘ جو ہے وہ وہاں گنگا جل میںاشنان کیا کریں گے ،مندر کے گھنٹے بجائیں گے ،بھجن گائیں گے ،پرشاد کھائیں گے ،محنت مزدوری کریں گے اور اچھے اچھے کرم کریں گے تاکہ بھگوان آنے والے
مزید پڑھیے


کراچی کو سننا ہوگا…

هفته 26  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
وہ تصویرغالبا کراچی کے ایک پیدل برج کی ہے جس پر قطار سے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے پرچم اس ترتیب سے لگے ہوئے ہیں کہ ایک پرچم ایم کیو ایم اور ایک جماعت اسلامی کا ،پل کی پرچم بردار ریلنگ پرجماعت اسلامی کا ایک بڑا سا بینر بھی آویزاں ہے جس پر جلی لفظوں میں تحریر ہے ’’ ہم تین کروڑ ہیں ڈیڑھ کروڑ نہیں ،جعلی مردم شماری نامنظور‘‘یہ تصویر کراچی کے بدل جانے والے سیاسی موسم کا پتہ دے رہی ہے ورنہ ایک ہی صف میں ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے پرچم کیسے لگ
مزید پڑھیے


’’کشمیریوں کا لہو’’لہو‘‘ نہیں‘‘

منگل 22  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
میں نہیں جانتا کہ اب وہ بچہ کہاںہوگا ،اگر وہ لہو میں لتھڑی جنت ارضی کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر پھر سے عبور کر گیا، توغالب گمان یہی ہے کہ اس کے کسی گوشے میں کہیں سینے پر زخموں کے کبھی نہ مرجھانے والے پھول لئے ابدی نیند سو رہا ہوگا، یہ 1998ء کی بات ہے جب کراچی کے صحافیوں کا ایک وفد جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں شرکت کے لئے کراچی سے اسلام آباد پہنچاتھا اورپھر یہاں سے اسی مقبوضہ جنت ارضی کی جانب روانہ ہوا،اس وفد کے شرکاء میں اس وقت کے نوجوان اور نوآمیز
مزید پڑھیے


’’سترہ ستمبر۔۔۔‘‘

جمعه 18  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن

ہائے ! وہ بھی کیا دن تھے ابھی سترہ ستمبر میں سترہ دنوں کی مسافت ہو اکرتی تھی کہ شہر قائد کی دیواریں ’’قائد‘‘ کی چاکنگ سے رنگین ہوجاتیں،کیا ایم اے جناح روڈ اور کیا شاہراہ فیصل ،کیا دہلی کالونی اور کیا ناگن چورنگی لیاری اور پشتون بلوچ،سندھی آبادیوں کو چھوڑ کر کراچی کے ہر علاقے میں ’’قائد‘‘کی جے جے کار ہوتی،اہل علاقہ پر سترہ ستمبر کے روز خیر مقدمی بینرزپوسٹر اور وال چاکنگ اور جشن فرض ہوا کرتی تھی کسی علاقے سے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوتی تو اس پورے علاقے کواسکا اجتماعی کفارہ ادا کرناپڑتا جو
مزید پڑھیے



’’گونگے مظالم ‘‘

بدھ 16  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
وہ میرے گھنگھریالے بالوں اور گندمی رنگت سے مجھے بلوچ سمجھا تھا میں چہرے مہرے سے بلوچ ہی لگتا ہوں ،کراچی کے علاقہ لیاری پیپلزپارٹی کا گڑھ جانا جاتا ہے یہاں بلوچوں کی اکثریت ہے۔ صحافتی ذمہ داریاں جب کبھی یہاں لے جاتیں تو یہاں کے مقامی بھی مجھے بلوچ ہی سمجھتے اور بلوچی میں گپ شپ کرنے لگے جاتے تھے، اسی لئے جب اس نوجوان نے مجھے واجا کہہ کر بلوچی میں مخاطب کیا تو مجھے کچھ عجیب سا نہ لگا ،وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں بلوچوں کے کس قبیلے سے ہوں ،میں نے مسکراتے ہوئے
مزید پڑھیے


’’فلٹر ہی خراب ہے ‘‘

هفته 12  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
یہ 2009ء کی بات ہے یورپ کے خوبصورت ملک سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا ،زندگی اپنے راستے پر رواں دواں تھی لیکن اسی شہر میں ایک سڑک پر ایک ستر سالہ بوڑھے کے لئے سب ٹھیک نہ تھا وہ قطار میں لگی گاڑیوں میں اپنی کارلگائے ہوئے بی چینی سے پہلو بدل رہا تھا اور اسکی لٹکی ہوئی پرگوشت ٹھو ڑی والے سرخ وسپید چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی اسکی تشویش کا سبب وہ سپاہی تھا جو ہاتھ میں کوئی آلہ لئے ایک ایک گاڑی کے پاس جارہاتھا یہ آلہ دارصل
مزید پڑھیے


’’ہائے وہ کراچی ۔۔۔!‘‘

بدھ 02  ستمبر 2020ء
احسان الرحمٰن
’’بھائی ! دل خون کے آنسو روتا ہے ،سچ کہتا ہوں کراچی اپنی تاریخ کے بدترین دنوں سے گزر رہا ہے پورا شہر کچی آبادی کی کچرہ کنڈی بن چکا ہے کیا خدا کی بستی اور کیا ڈیفنس سب کا ایک ہی دکھ ہے ‘‘۔سید صاحب سردآہ بھرنے کے بعد کہنے لگے یہ وہ کراچی ہے ہی نہیں جو میری یاداشتوں میں محفوظ ہے ۔کراچی صرف بلدیاتی تنزلی کا ہی شکار نہیں ہوا بلکہ معاشرتی اور تہذیبی طورپر بھی بہت پیچھے چلا گیا ہے،سید شوکت سلطان میرا وہ اثاثہ ہیں جنہیں کراچی میں چھوڑنے کا قلق شائد کبھی ختم نہ
مزید پڑھیے


مینگل صاحب! فرق کیوں!

اتوار 30  اگست 2020ء
احسان الرحمٰن
یہ گزشتہ برس اپریل کی ایک بدقسمت رات تھی جاڑے کی خنکی ابھی نہیں اتری تھی ،رات کے دامن میں اندھیرا تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ رات کچھ زیادہ ہی کالی اور سیاہ تھی چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا گوادر سے چلنے والی مسافربردار بس کی دو پیلی ہیڈلائٹس یہ تاریکی چیر کرڈرائیور کو راستہ دکھا رہی تھیں ،بس کا ڈرائیور جانے پہچانے راستوں سے ہوتا ہوا کراچی کی جانب بڑھ رہا تھا ،بس میں سوار زیادہ تر مسافر سو اور چند ایک اونگھ رہے تھے وہ منتظر تھے کہ کب ہیبت ناک پہاڑوں کا یہ راستہ ختم
مزید پڑھیے


ملکی سیاست اور خارجہ تعلقات

پیر 24  اگست 2020ء
احسان الرحمٰن
میرا خیال تھا کہ طویل ملازمت کے بعد وہ اب ریٹائرڈ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہیں گے اتوار کے دن جینز اور ٹی شرٹ پہن کر پی کیپ لگائے بیگم کے ساتھ سبزی خریدتے ملیں گے چن چن کر پھل خریدتے نظر آئیں گے یا پھر شام کو اسلام آباد گالف کورس کے سرسبز میدان میںگالف اسٹک جچا تلا اسٹروک لگاتے پائے جائیں گے لیکن صاحب ایک نجی ادارے سے منسلک ہوگئے جہاں اب ان سے ہفتے دو ہفتے بعد کھلی ملاقات ہوتی ہے بنا شکر کے سبز چائے یا کڑک دودھ پتی کے گرم محلول کی چسکیاں لیتے
مزید پڑھیے








اہم خبریں