ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا
سر بسر خواب کا تعبیر نما ہو جانا
اپنی خواہش تری یادوں میں بھٹکتی ہے کہیں
جیسے گلدشت میں تتلی کا فنا ہو جانا
پھولوں میں اڑتے ہوئے رنگ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے۔فطرت کی اپنی مہک ہوتی ہے اور پھر سبزے کی طراحت ۔ان دنوں تو گلاب بھی خوب کھل رہے ہیں اور سیاست میں بھی گل کھلائے جا رہے ہیں۔یہ جہان اسباب کی بو قلمونی مجھے بہت کھینچتی ہے۔کہیں بھی یکسانیت اور جمود نہیں ہے۔نرگسیت کا شکار لوگوں کی نظر اس طرف نہیں جاتی۔ہائے ہائے شاخ در شاخ سبک سار ہوائوں
اتوار 29 جنوری 2023ء
مزید پڑھیے
سعد الله شاہ
قرضوں کی سکیم یا سیاسی سکیم
جمعرات 26 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
یہ بھی تماشہ دیکھ لیا خاص و عام نے
رسوا کیا ہے تونے مجھے سب کے سامنے
لوگوں کو ہے یہ دکھ کہ نہیں کام کچھ کیا
بے کار کر کے رکھ دیا مجھ کو تو کام نے
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے، سیاست اور معاشرت پر بھی بات کریں گے مگر دل چاہتا ہے کہ کچھ تخلیقی صورت حال آپ سے شیئر کروں کہ کچھ فہم و فکر کی ریاضت بھی ہو جائے۔جیسے شبیہ ابر ہو پانی سے منعکس۔میں رو رہا تھا اور تھا وہ میرے سامنے صحرا کے عین بیچ تو سچ مچ سراب تھا میں بڑھ رہا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
بے خبری
بدھ 25 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
سانسوں میں کوئی خوف بسا لگتا ہے
ہر جسم مجھے سر سے جدا لگتا ہے
مشکل میں ہوں میں اور ہوں خود سے الجھا
ہونا میرا دیکھو تو سزا لگتا ہے
ہم سب کو ایک غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔ معاشرہ بری طرح سے تقسیم ہو چکا ہے۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور اسی طرح کل تک ایک دوسرے کو قابل گردن زدنی قرار دینے والے ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں۔ وقت پر گدھے کوباپ بنانے والا محاورہ صرف محاورہ ہی نہیں کہ محاورے تو ہمارے عمل سے بنتے ہیں۔ مکاری‘ عیاری اور بزدلی طفیلی لوگوں کا شیوہ ہے۔
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
وزیراعلیٰ پنجاب اور تاریخ
منگل 24 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
مت ہمیں چھیڑ کہ ہم رنج اٹھانے کے نہیں
زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں
زندگی اپنے مقدر کا ستم ہے ورنہ
کتنے کردار ہیں جو اپنے فسانے کے نہیں
بات تو کچھ ایسی ہی ہے۔ اپنی خواشہات پر نہ دربند ہوتے ہیں نہ کھلتے ہیں۔ پھر بھی ایک پیہم جستجو اور ان تھک سعی سے ایسا کچھ ہو بھی جائے تو بعید نہیں۔ خود ہی اک روز نکل آئے گا دیوار سے در۔ ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں۔ محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا اور انہوں نے حلف بھی اٹھا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
فرد‘ معاشرہ اور تواضع
پیر 23 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
یہ جو پرشکستہ ہے فاختہ، یہ جو زخم زخم گلاب ہے
یہ ہے داستاں میرے عہد کی ،جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے
میری جان ہونٹ تو کھول تو ،کبھی اپنے حق میں بھی بول تو
یہ عجیب ہے تری خامشی ہے یہ سوال ہے کہ جواب ہے
موجودہ حشر سا مانیوں میں کسی کو کچھ نہیں سوجھتا۔ ایک بے حسی کی سی کیفیت ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے لوگوں میں بولنے کی ہمت نہیں رہی۔ ہمارے دوست ملک سعید بہت فکر مند تھے ، ان کا کہنا تھا کہ ڈوبتی ہوئی معیشت کی وجہ سے کیا ہوئے جا رہا ہے۔ ان کی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
هفته 21 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں
جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو
پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں
دنیا کا چلن کچھ ایسا ہی ہے۔قدم قدم پر مشاہدہ ہوتا ہے اور تجربہ بھی، مگر انسان مچھلی کی طرح پتھر چاٹ کر ہی واپس آتا ہے ویسے بھی منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو، بے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں۔ پیرزادہ قاسم نے کہا تھا میں ایسے شخص کو زندوں میں کیوں شمار کروں جو سوچتا بھی نہیں خواب دیکھتا بھی نہیں۔کہتے ہیں
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
عمران خان اور جماعت اسلامی
جمعرات 19 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
وہ بام عزو شرف سے گزر گیا ہوتا
اگر وہ سچا نہ ہوتا تو ڈر گیا ہوتا
یہ زہر اصل میں سقراط کو تھا آب حیات
اگر وہ زہر نہ پیتا تو مر گیا ہوتا
کسی کے دم سے عزت یاب ہونے والے اس بات کو نہیں سمجھیں گے۔اس بات کو وہی جانے گا، جو جان سے گزرجانے کا حوصلہ رکھتا ہو، روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں کبھی ہم نے عمران خان کے لئے کہا تھا سچ کی آواز میں آواز ملائو آئو شہر لب بستہ میں اک حشر اٹھائو آئو۔
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا
بدھ 18 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے
سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے
دور ہیں حرص و ہوس سے تو کرم ہے اس کا
دانہ رکھتے جو نظر میں تو کس دام کے تھے
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم سب کچھ عالم اخفا ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔اسی لئے ایک بے کلی سی تو رہتی ہے مگر یہ سب فطرت کے زیر اثر ہے۔ سعد پڑھنا پڑی ہم کو یہ کتاب ہستی۔ باب آغاز کے تھے جس کے نہ انجام کے تھے۔ پتہ نہیں کیوں میر کا ایک شعر میرا شامل حال رہا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
راستے بند ہوئے جاتے ہیں!
پیر 16 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا
بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا
بہتر ہے آئینے کے مقابل نہ آئیں ہم
تو جو نہیں تو خود سے بھی راز و نیاز کیا
یہ شہرسنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے، اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا۔ایسے ہی ایک شعر ذھن میں آ گیا اور یہ کہ تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں، آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ۔اپنا کیا سامنے ضرور آتا ہے کوئی سوچ سکتا ہے کہ یہ وقت بھی آنا تھا کہ متحدہ نے کراچی میں بلدیاتی
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے
ہاتھ اٹھا لئے سب نے اور دعا نہیں معلوم
اتوار 15 جنوری 2023ءسعد الله شاہ
فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے
دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے
آئے بکنے پر تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا
وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے
محفل جمی تھی تو ہمارے دوست ندیم خاں نے ایک شعر کا تذکرہ کر دیا یعنی سینے میں میرے تیر وہ مارا کہ ہائے ہائے کہنے لگے یہ شعر کس کا ہے ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے پہلے پہلے۔
پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے جا رہی ہے اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کا اعلان بھی ہو چکا گویا
مزید پڑھیے
مزید پڑھیے