فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے آئے بکنے پر تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے محفل جمی تھی تو ہمارے دوست ندیم خاں نے ایک شعر کا تذکرہ کر دیا یعنی سینے میں میرے تیر وہ مارا کہ ہائے ہائے کہنے لگے یہ شعر کس کا ہے ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے پہلے پہلے۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے جا رہی ہے اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کا اعلان بھی ہو چکا گویا وہ خواب جو خان صاحب نے دیکھا تھا وہ اپنی تعبیر کی طرف گامزن ہے۔ ن لیگ بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے یا یوں کہیں کہ انہوں نے جو بویا تھا وہ کاٹنے جا رہے ہیں۔ لالچی اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور پھر جب کوئی بزدل بلکہ مہا بزدل آپ کا لیڈر ہو خیر لیڈر مجھے نہیں لکھنا چاہیے وہ کہ جن کی پرواز میں کوتاہی آئی ہوئی کہ وہ خود ہی بار بار اور لہرا لہرا کر شعر پڑھتے تھے: اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی اصل میں دونوں برادران کی خواہشات ٹکرا رہی تھیں بڑے بھائی کو شوق ہے کہ دوسرے کو زیر کر کے رہے جبکہ برادر خورد کو چسکہ کہ زیر ہو کے رہے ۔ جائیں تو کہاں جائیں گے۔چلتی تو پھر زبردست کی ہے ویسے بھی یہ ایک سکرپٹ ہے کوئی سمجھتا ہے اور کوئی نہیں۔مگر دونوں افعال سے فرق کچھ نہیں پڑتا۔خان صاحب کی بات اپنی جگہ درست تھی کہ نیوٹرل کچھ نہیں ہوتا۔ویسے بھی نیوٹرل گاڑی تو رکی ہوئی ہوتی ہے گیئر ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ گاڑی کو چلایا جائے بہرحال یہ بات تو ضمناً آ گئی مسئلہ تو نظام کے چلنے کا ہے اور یہ تب ہی چلے گا جب کوئی چلائے گا کشتی کنڈے کسے لگدی، نہیں سی موڈ ملاحواں دا ۔ربا میرے دیس دی خیر۔سر تے شور اے کانواں دا۔ جو بھی ہے سب کو باری باری آنا اور کما کر دینا ہوگا ن لیگ کا کردار شاید جنیوا کانفرنس تک تھا اس سے آگے کیا لکھیں وہی کہ اس کے بعد اس کی لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور‘محسوس تو ایسے ہی ہو رہا ہے کہ سکرپٹ انجام کی طرف جا رہا ہے اور انتخاب ہو کر ہی رہیں گے اور جو ن لیگ کی غلط فہمی تھی کہ شاید انہیں وقت مل جائے گا کہ توانائی حاصل کر سکیں ۔ پرویز الٰہی کی بات غلط نہیں کہ انہوں نے ن لیگ کو جاتی امرا تک محدود کر دیا ہے یہ بات اصل میں راز کو فاش کرنے کے مترادف ہے وگرنہ پرویز الٰہی کی بساط تو ایک مہرے کی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی جو وہ کھلاڑی ہیں کھیلنے والے مہرے نہیں ہوتے۔ ہاں گھوڑے ہو سکتے ہیں اور اگر غلطی کر لیں تو پھر گدھے بنا دیے جاتے ہیں۔ ایسے ایک شعر ذھن میں آ گیا: ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی ہم سب کہتے تھے کہ خان صاحب کو اپنا وقت پورا کرنے دیں مگر آپ بضد تھے کہ نہیں عدم اعتماد کرنا ہے اور آنا ہے ہمیں کیا پتہ تھا کہ آپ کا وقت پورا ہونے جا رہا ہے۔لگتا ہے کہ تبدیلی ایک مرتبہ پھر آ رہی ہے یہ بھی پرویز الٰہی نے کہا کہ زرداری کو انہوں نے فیل کر دیا ہے اس کا ثبوت سب کے سامنے ہے ۔مصطفی کمال ہی کیا فاروق ستار بھی متحدہ میں ضم ہو چکے۔ویسے اس بات کا اعلان الطاف حسین دبے لفظوں میں کر چکے سوکھے دھان پر پانی پڑ چکا ہے پھر فراز یاد آ گئے کہ آغاز میں ہی تذکرہ کیا تھا 12 دسمبر ان کا یوم پیدائش تھا اور دوستوں نے سوشل میڈیا پر ان کے اشعار لکھے ہماری بھی ان کے ساتھ بے شمار یادیں ہیں موقع محل کی مناسبت سے ان کی ایک غزل تو کل خوب بار دگر وائرل ہوئی: کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم ہاتھ اٹھا لئے سب نے اور دعا نہیں معلوم رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں کب کہاں یہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم اور پھر اس غزل کا مقطع تو کمال کا ہے کہ ہم فراز شعروں سے دل کے زخم بھرتے ہیں۔کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم۔ ہم بھی اپنی یادوں میں گم ہو گئے فراز صاحب کی محفلیں یاد آئیں اور ان کے ساتھ پڑھے ہوئے مشاعرے ایک شعری محفل تو مجھے کبھی نہیں بھولتی کہ فراز صاحب نے نہایت شفقت سے ایک شعر تین مرتبہ سنا۔ کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو ہم ناروے بھی اکٹھے گئے تھے اور وہاں کے گزارے ہوئے شب و روز آنکھوں پر ہیں۔ اس کی ایک جھلک کہ آپ بھی محظوظ ہونگے۔میں نے صبح اٹھ کر فجر کی نماز پڑھی تو فراز صاحب پوچھنے لگے کہ بھئی کون سی نماز پڑھ رہے ہو۔میں نے کہا فجر کی ہنس کر بولے وہ تو رات ڈیڑھ بجے ہوتی ہے۔میں بھی ہنس دیا کہ فراز صاحب کو نماز کے اوقات بھی معلوم ہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ واقعتاً اوسلو میں مغرب عشاء اور فجر تھوڑے تھوڑے وقفے سے ہو جاتی ہیں۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ صرف باکمال شاعر ہی نہیں تھے انہیں تعمیر کا بھی بہت شوق تھا۔ بارہ کوہ میں فراز ہائیٹس انہوں نے خود بنوائے تھے اس میں ہم لوگ بھی ایک دو رات کے لئے قیام کر چکے ہیں۔ان میں ایک تو کرزما تھا اور پھر ان کی مصرع سازی خداداد تھی اور وہ ان چند شعرا میں سے تھے جن کے اشعار محاورے بن جاتے ہیں۔ ایک شام ان کے ساتھ جم خانہ میں منائی گئی تھی جس کی احمد ندیم قاسمی صاحب نے صدارت کی تھی مجھے اس میں شرکت کا شرف حاصل ہے۔احمد ندیم قاسمی بڑے آدمی تھے کہنے لگے کسی نے ان کے سامنے آٹو گراف کیا اور کہا کہ فراز کا شعر لکھ دیں۔مزے کی بات کہ احمد ندیم قاسمی صاحب نے لکھ دیا: ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں