لاہور جانے کو اب دل نہیں کرتا لیکن سچ یہ ہے کہ لاہور جانے کو بہت جی کرتا ہے۔ یہ جو آج کا لاہور ہے ، یہ ایک وحشت کدہ ہے۔ بے ہنگم ٹریفک کا شور ، اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ لیکن اس شور کے پیچھے جو قدیم وقتوں کا لاہور سہما پڑا ہے اور جس کے نقوش عہد موجود کی وحشتوں نے چاٹ کھائے ہیں وہ لاہور ہمیشہ آوازدیتا ہے اور بلاتا ہے ۔ اس کا حل یہ تلاش کیا ہے کہ جب کبھی عید کی چھٹیاں ہوتی ہیں اور پردیسی لاہور سے چلے جاتے ہیں تو دیوار دل پر ایک دستک سی ہوتی ہے کہ لاہور دیکھنے کا یہی موقع ہے۔ لاہور کے اکثر قدیم مقامات، میں نے ایسے ہی ایام میں دیکھے۔ پرانے وقتوں سے محبت ہے۔ کیوں ہے یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔ یہی محبت کھینچ کر لے جاتی ہے ، کبھی سلطان جلال الدین شیر خوارزم کے قلعہ تلاجھہ میں اور روات کے قلعے میں سلطان سارنگ اور اس کے ایک درجن بیٹوں کی قبروں پر ، جن کی زندہ کھال کھینچ لی گئی مگر انہوں نے جس سے عہد وفا باندھا تھا اس سے غداری نہیں کی۔ محبت ، وفا اور غداری کے ایسے کتنے ہی پرانے نقوش لاہور کی مٹی میں پیوست ہیں اور یہی وہ لاہور ہے جو ہمارا لاہور ہے۔ برادر م اشرف شریف کا ایک کالم روزنامہ 92 میں شائع ہوا تو وہ اسی پرانے لاہور کے رنگوں میں بھیگا تھا ، بہت اچھا لگا ۔ پھر یہ ہوا کہ وہ مسلسل اس موضوع پر لکھتے گئے اور ایک قوس قزح سی بن گئی۔ تاریخ کے معدوم ہوتے رنگوں کی یہ قوس قزح کتابی شکل میں میرے سامنے رکھی ہے اور اس کا نام ہے : ارمغان لاہور۔ اس کے چند اقتباسات گویا صدیوں کی مسافت ہیں۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں: ـ’’لاہور کی کچھ کہانیوں میں حیرت اور بھید بھی ہے۔ لاہور کے قدیم رہائشی افراد نے بتایا کہ نونہال سنگھ کی حویلی اندرون موری گیٹ جس کے قرب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑی بھی دکھتی ہے، اس سے کچھ پرے رنگ محل کے بیچوں بیچ سے ، سنہری مسجد کی اونچی سیڑھیوں کو تکتے ، وان وٹاں کی ایک بلڈنگ میں ، شاید نونہال ہی کے کسی ہمجولی شہزادے کی روح آج بھی قدیم وقتوں کی ناشاد محبتوں کی کہانی سناتی پھرتی ہے۔دلی دروازے سے داخل ہوں تو الٹے ہاتھ ایک تنگ گلی پڑتی ہے۔یہ اکبری منڈی کی ملحقہ گلی ہے ۔ دائیں ہاتھ محلہ نمد گراں ہے۔ اس گلی میں ایک چھتی چھپات ہے۔ لاہور کے پرانے رہائشی بتاتے ہیں کہ ادھر مائیاں رانیاں رہتی ہیں۔یعنی ایسی ہستیاں جو اب بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ ایک شخص یہاں کا متولی ہے۔ لوگ دیوار پر سیندور پھینکتے ہیں ، اب بھی دیے جلاتے ہیں ، جوتے اتار کر وہاں جاتے ہیں ، منتیں مانتے ہیں۔ کچھ خاص ایام پر مائیاں رانیاں کو خوش کرنے کے لیے ڈھولکی بجائی جاتی ہے۔ روایت ہے کہ رانیاں ہندو تھیں۔ مسلمان ہوئیں اور پھر اللہ سے زمین میں سمانے کی دعا کی جو قبول ہوئی۔ کچھ دیگر نوع کے قصے معروف لاہور شناس عبد المجید شیخ نے اپنی کتاب ، قصے لاہور کے میں ریکارڈ کیے ہیں۔ کیا پتہ لاہور کے تکیے پر بیٹھے قصہ گو ختم ہونے سے کتنے قصے ختم ہو گئے‘‘۔ ’’لاہور میں ایک حکیم ہوا کرتا تھا۔ جہانگیر بادشاہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ شاہ جہاں تخت نشیں تھا۔ جہاں گیر کی چہیتی ملکہ کے پائوں میں پھوڑا نکل آ یا ۔ طبیب جو علاج بتاتے وہ چیرا دینے کا تھا۔ نور جہاں اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ کسی نے شاہ جہا ں کو حکیم کے متعلق بتایا ۔ حکیم آیا ۔ ایک جگہ ریت بچھا دی گئی اور نور جہاں سے برہنہ پا چلنے کی درخواست کی گئی۔ نور جہاں ایک سمت سے چلتی ہوئی دوسری طرف چلی گئی۔ حکیم نے ریت پر بنے نقش سے اندازہ کیا کہ پھوڑا پائوں کے کس حصے میں ہے۔ اس نے ریت پر بنے نقش میں ایک جگہ باریک کانٹا رکھ دیا اور ملکہ سے کہا کہ پہلے سے بنے نقش کے عین اوپر چلتی ہوئی آئے۔ ملکہ پہلے کی طر ح ریت پر چلتے ہوئے دوسری جانب گئی تو اس کے پائوں کا پھوڑا پھٹ چکا تھا۔ یہی حکیم وزیر خان کے نام سے لاہور کا گورنر بنا ۔ مسجد وزیر خان اسی سے منسوب ہے‘‘۔ ’’یہ 1639 کی بات ہے۔ علی مردان خان نے بادشاہ شاہ جہاں کو بتایا کہ اس کے متعلقین میں ایک شخص نہریں تعمیر کرنے کا ماہر ہے ۔ اس شخص کو اجازت دی جائے تو وہ راوی دریا سے ایک نہر اس مقام سے نکال سکتا ہے جہاں دریا پہاڑی علاقوں سے باہر آ کر میدانوں میں گزر گاہ بناتا ہے ۔ اس نہر کا پانی نواح لاہور کے باغات کی آب پاشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔مورخین اس ماہر کا نام جانی خان بیان کرتے ہیں۔ جانی خان کا مقبرہ شالا مار باغ کے قریب باغبان پورہ کی حدود میں واقع تھا۔ انگریز عہد میں مقبرے کے نگران نے اسے مسمار کر کے اپنے مکان میں شامل کر لیا‘‘۔ ’’میو ہسپتال بننے سے پہلے یہ علاقہ ہری سنگھ نلوہ کا باغ تھا۔ رنجیت سنگھ کے سپہ سالار نے جب یہاں باغ نہیں بنایا تھا تو یہ علاقہ باغ مائی لاڈو کہلاتا تھا۔ مائی لاڈو کی مسجد آج بھی ہسپتال کے مشرق میں موجود ہے۔ہسپتال کے ایک حصے کے ساتھ چھجو بھگت کا چوبارہ اب بھی موجود ہے۔ اس کے چاروں طرف مریضوں کے وارڈ ہیں۔ درمیان میں چوبارے کی عمارت ہے۔ لاہور کی قدیم عمارات میں سے اگر کوئی عمارت سب سے بہتر حالت میں موجود ہے تو وہ چھجو کا چوبارہ ہے۔ چھجو شاہ جہاں بادشاہ کے عہد کا ایک خدا پرست فقیر تھا۔ چھجو اس چوبارے میں بیٹھ کر عبادت یا گیان دھیان میں مصروف رہتا۔ جب کوئی ملنے آتا تو لکڑی کی سیڑھی لگا کر اسے اوپر بلا لیا جاتا۔ چھجو بھگت کی کئی کرامات مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا جہاں عرصے تک لوگ برکت کے لیے نہاتے تھے۔ اسی لیے مشہور ہے: جو مزہ چھجو دے چوبارے ، او بلخ نہ بخارے‘‘۔۔۔۔۔سچ یہ ہے کہ محاورہ تو میں نے بھی سن رکھا تھا لیکن ارمغان لاہور پڑھی تو معلوم ہوا یہ چوبارہ کس کا تھا اور کہاں تھا۔ اگلی بار لاہور گیا تو چھجو صاحب کے چوبارے پر ضرور جانا ہے۔ ہو سکتا کہ لاہور کا اگلا چکر ہی چھجو صاحب کے چوبارے کے لیے لگے۔ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں : میں اس کتاب کی اشاعت پر اشرف شریف کو تہہ دل سے مبارک دیتا ہوں اور ہ کون سی تہہ ہے؟ وہ جو میرے دل کی مٹی کی نچلی تہہ ہے، جہاں زرخیزی ہے ، محبت ہے ، جہاں تحسین ہے ، اس تہہ سے میں اسے مبارک دے رہا ہوں۔ ۔۔ یہ کالم بھی ، میں ، اسی مٹی سے لکھ رہا ہوں۔ بھولے بسرے وقتوں کی داستانیں جمع کرنا محبت کی کوہ کنی ہے۔ میں اس کوہ کن کو مبارک دینا چاہتاہوں۔ ارمغان لاہور محبت کی کہانی ہے۔ اور محبت کی کہانی کبھی مرتی ہے نہ کبھی ختم ہوتی ہے ۔ میں اس کہانی کا قتیل ہوں اور اس کے دوسرے ایڈیشن کا منتظر۔