سیاست ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر دائرے کا سفر ثابت ہو رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے ہم قوم کی حیثیت سے آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو پھر چار قدم پیچھے پلٹ جاتے ہیں ۔ فروری میں ہونے والے انتخابات نے معاملات کو اور زیادہ گھمبیر کردیا ہے۔ یہ امید تھی کہ انتخابات کے بعد سیاسی فضا پر چھائی ہوئی دھند چھٹ جائیگی اور ایک مستحکم سیاسی حکومت کے قیام کے بعد ملک آگے کی طر ف اپنا سفر شروع کرسکے گا۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔انتخابی نتائج کے الٹ پھیر نے سیاسی آلودگی کو مزید بڑھا دیا ۔انتخابات سے قبل کئے جانے والے ’’حفاظتی ‘‘ انتظامات اور اقدامات کارگر نہ ہوسکے اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ایک بار پھر رک گئے۔ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یاکیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ( منیر نیازی ) وفاق میںجہاں ایک مضبوط سیاسی حکومت کی شدید ضرورت تھی وہاں صورتحال پیچیدہ اور غیر مستحکم ہے شہباز شریف کی سربراہی میں اگرچہ ایک مخلوط ( اور کسی قدر غیر مستحکم ) حکومت قائم ہے مگر تین ماہ ہونے کو آرہے ہیں اس کی ؎ واضح سمت اب تک متعین نہیں ہوسکی ہے ۔ کابینہ میں ہر روز مشیر ، صلاح کار اور رابطہ کار شامل کئے جارہے ہیں ، وزراء کے محکمہ جات تبدیل ہو رہے ہیں ۔ فیصلے کئے جارہے ہیں اور پھر انہیں واپس لیا جارہا ہے۔ ریاست کے اہم محکموں کے معاملات میں انتہائی غیر سنجیدگی نظر آرہی ہے ۔ خزانہ،داخلہ اور خارجہ ریاست کے اہم محکمہ جات سمجھے جاتے ہیں اور ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان محکموں کی ذمہ داری اہل لوگوں کے سپرد ہو مگر پاکستان میں ایسا ہونا کچھ ضروری نہیں۔ یہاں اہلیت سے زیادہ قرابت داری ، نا دیدہ غیر سیاسی ( ملکی اور غیر ملکی ) دبائو اور سیاسی مفادات اور مصلحتیں اہم سمجھی جاتی ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت میں یہ کیفیت اپنی انتہا پر ہے۔ان تینوں اہم وزارتوں کے معاملات میں غیر سنجیدگی نمایاں ہے۔ وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار کا دل اپنی وزارت سے زیادہ مالیاتی امور میں اٹکا ہوا ہے لہذا حکومت نے ان کی دل بستگی کے لئے انہیں مشترکہ مفادات کی کونسل کا رکن بنادیا ہے ۔وزیر خزانہ جناب محمد اورنگ زیب جنہیں بلحاظ منصب اس کونسل کا رکن ہونا چاہیے تھا وہ اس میں شامل کئے جانے کے لائق نہیں سمجھے گئے۔ حکومت کی جانب سے ا سحاق ڈار کی شمولیت کا جو جواز دیا گیا ہے اس کے مطابق انہیں ان کے سابقہ تجربے اور صوبوںسے معاملات طے کرنے کی ( اعلی ) صلاحیتوں کے پیش نظر اس کونسل میں شامل کیا گیا ہے جب کہ موجودہ وزیر خزانہ چونکہ پہلی بار کابینہ کا حصہ بنے ہیں لہذا انہیں اس کا اہل نہیں سمجھا گیا پھر نجکاری کے معاملات پر بھی اسحاق ڈار نظر رکھیںگے۔خارجہ امور کے لئے جلیل عباس جیلانی اور طارق فاطمی جیسے غیر منتخب افراد کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ اسحاق ڈار اگر مالیاتی امور کے اتنے ماہر اور تجربہ کار ہیں تو انہیں وزیر خزانہ بنائے جانے میں کیا قباحت اور رکاو ٹ تھی ؟ اور پھر یہ کہ جناب اورنگ زیب کو ایک پرکشش ملازمت اور غیر ملکی شہریت سے دستبردار ہونے کی زحمت کیوں دی گئی ۔وزارت داخلہ کے لئے جناب محسن نقوی کا انتخاب کیا گیا ۔ وہ حالیہ انتخابات کے دوران پنجاب کے نگراں وزیر اعلی رہے ہیں اسی کے ساتھ انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہی بھی دی گئی ہے ۔ ان کی زیادہ تر سرگرمیاں ( اور دلچسپیاں) کرکٹ کے امور میں نظر آرہی ہیں ۔ وزارت داخلہ ایک اہم او ر حساس وزارت ہے ۔داخلی سلامتی کے مسائل روز بروز پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں ۔یہ وزارت پوری توجہ کی متقاضی ہے ۔ اسے اس طرح ان کے سپرد کئے جانے میں کیا مصلحت اور دانائی ہے؟ اس کی توجیہہ شائد خود وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں ہے ۔ عجلت میں کئے جانے والے فیصلے اور پھر ان سے دستبردار ہونے کی کئی مثالیں اب تک قائم ہو چکی ہیں۔ ریاست اس وقت داخلی سلامتی کی جس پیچیدہ اور سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس میں سیاسی طور پر کمزور حکومت کا یہ طرز عمل کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔سیاسی انتشار اور معیشت کی اس جاں بلب صورتحال میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی حکومت وجود میں آتی مگرعوامی مزاج اور سماج کی بدلتی ہوئی صورتحال کو پس پشت ڈالنے کی حکمت عملی نے سیاست اور ریاست کو غیر ضروری طورمشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ انتخابات کے نتیجے میں حاصل شدہ منقسم مینڈیٹ کا خمیاز ہ سب سے زیادہ وفاق کو اٹھا نا پڑ رہا ہے۔ یہ بات تو اب روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ وفاق میں شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نواز کی حکومت قائم تو ہے مگر خود مسلم لیگیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانی کسی اور کی ہے ۔ مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت میں موجود اضطراب اور عدم اطمنان اس صورتحال کا غماز ہے۔رانا ثنا ء اللہ ہوں یا خواجہ آصف، میاں جاوید لطیف ہوں یا سعد رفیق سب جانے انجانے اندیشوں میں گھرے نظر آتے ہیں ۔ وزیر اعظم کے فرزند ارجمند حمزہ شہباز اگرچہ رکن قومی اسمبلی ہیں مگر بجھے بجھے سے ہیں۔ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف بھی وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کے باوجود یاسیت اور غیر یقینی کیفیت میں ہیں ۔ حالات اور موجودہ سیاسی حرکیات نے ا ن کے سیاسی سفر پر جمود طاری کر دیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان حکومتوں کو بوجھ اب ان کی سیاسی جماعت اٹھا نہ پائیگی اور بہت کم قیمت پر انہوں نے ا پنا اور اپنی سیاسی جماعت کا مستقبل دائو پر لگادیا ہے ۔ اس سارے منظر نامے میں پاکستان پیپلزپارٹی نے بہتر سیاسی حکمت عملی اختیار کی اور کوئی قیمت ادا کئے بغیر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کر لیا ہے ۔ سندھ اور بلوچستان میں سیاسی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ وفاق میں صدر مملکت کا اعلی ترین عہدہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی آصف زرداری کے لئے حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔اور اب سینٹ کی چیئر مین شپ بھی اس کی نظر ہے ۔ سیاسی کامیابیوں اور ناکامیوں کی اس پر پیچ حکمت عملی میں ریاست اور اس کے 25 کروڑ عوام مسلسل نظر انداز ہو رہے ہیں ۔مسائل زیست ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں ۔ عوامی مزاج میں اشتعال اور انتشارکے واضح آثار ہویدا ہو رہے ہیں ۔ ریاست کی مقتدر قوتوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے درست فیصلے کی طرف آنا ہوگا ۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ دست دعا میں یہی طلب ہے کہ یہ ارض پاک سدا رہے سلامت ۔ ٭٭٭٭٭