یہ 15مارچ کا دن تھا اور ایوانِ اوقاف کا کمیٹی روم مشائخ و علماء اور اوقاف افسران و ملازمین سے لبریز تھا، بہرِملاقات’’شھرُ المواسات‘‘یعنی پیش آمدہ ماہِ محبت وموانست و غمگساری کی ترویج و تبلیغ کے عملی اہتمامات و اقدامات تھے، یعنی ملازمین کے لیے اشیاء خورد و نوش اور ضروریاتِ سحر و افطار کی بہم رسانی ، جس کو سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ مخیر حضرات کے تعاون سے ممکن بنایا گیا تھا، وزیر اوقاف بیرسٹر سید اظفر علی ناصر کا خطبہ دلنشین بھی تھا اور حوصلہ افزا تھا، جس میں انہوں نے محکمانہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے اوقاف افسران کی سپرٹ ، جذبے اور بالخصوص ٹیم ورک کو سراہا۔ انہوں نے جشنِ بہاراں کے موقع پر "صوفی رنگ"اور محافل سماع اور پھر انہی ایام میں اوقاف "نیوز لیٹر"کی طباعت و اشاعت ،جس کی تاثیر و ترویج پر نہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب بلکہ وزیراعظم پاکستان نے بھی تحسین اور پذیرائی فرمائی ۔جس کے مقدمے اور ابتدائیہ میں وزیر محترم کا یہ اظہار و ابلاغ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ: " اوقاف و مذہبی امورکا قلمدان سنبھالنے کے ساتھ ہی ، محکمانہ اتھارٹیز --- جس برق رفتار ی کے ساتھ، امور کی انجام دہی میں ،میرے معاون و مدد گار ہوئے ، و ہ میرے لیے حیران کن بھی تھا اور حوصلہ افزابھی ۔ اس ایک ماہ میں سیکرٹری اوقا ف کے ہمراہ ، صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب بھر کے اہم مزارات کا دورہ کر کے، وہاں کے ترقیاتی امور ، محکمانہ کارکردگی اور سیکیورٹی ، صفائی سمیت زائرین کے لیے دیگر سہولیات کی بہم رسانی کا جائزہ لیا اور حسبِ موقع ضروری اقدامات واحکام کو بھی ممکن بنایا ۔ اوقاف نیوز اگرچہ ایک ماہ کی" کارکردگی رپورٹ" ہے مگر اس کو دیکھ کر آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیںکہ اس محکمے میں کام کا کتنا سکوپ اور ورائٹی"Diversity"ہے ۔ اس میں تعمیر اتی اور ترقیاتی منصوبہ جات کی تشکیل و ترتیب بھی ہے اور محصولاتِ زر وریونیو کی تحصیل "Collection"بھی --- زرعی اراضیات اور کمرشل سکیموں کے ذریعے، اپنے وسائل خود پیدا کرنے کا جذبہ اور محدود ریسورسز کے سبب کفایت شعاری کا داعیہ اور بین المذاہب مکالمہ ، بین المسالک ہم آہنگی اور صوفیاء کے اسلوبِ محبت کی ترویج و تدریس کا اہتمام بھی۔ محکمہ کے سیکرٹری ، ایک متحرک"Dynamic" اور ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ، جنہوں نے اپنے وژن سے محکمے میں امید ، حوصلہ اور کامیابی کے نئے دَر وَاکر کے ، محنت ، دیانت اور لگن کے شعار کو عام کردیا ہے ، جس کا اندازہ ماہ فروری2023ء کی جائزہ رپورٹ جو کہ اس " اوقاف نیوز"کی صورت میں آپ کے سامنے ہے ،کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے "۔ بہرحال__ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور ایقان و ایمان کے فراواں ہوتے جذبے ، ولولے اور ان کے حسین مناظر و مظاہر ، جس کا اظہار صرف اس خطے تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے سحر میں مبتلا ہے ، جو کہ کہیں تحسین اور کہیں اشتعال کا باعث ہے۔ جس کے سبب دنیا میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کے تدارک کی تحریک کے گرد بندباندھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ چار سال قبل انہیں ایام یعنی 15مارچ کو ، نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں نمازِ جمعہ کے دوران ہونے والا سانحہ ، جس میں ایک جنونی شخص کی فائرنگ سے 51نمازی شہید اور 41زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ یقینا دل دہلا دینے والا تھا ، اور اسی موقع پر اقوامِ عالم نے محسوس کیا کہ "اسلامو فوبیا"کی شدّت صرف اسلام یا مسلمانوں کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتوینو گوترس نے اس موقعہ پر عالمِ انسانیت سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم مخالف تعصب کے زہر کو ختم کریں۔ جس کے لیے لامحالہ اسوۂ رسول ﷺکی ترویج کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہتمام ضروری ہے ۔بہت پہلے کیرن آرم اسٹرانگ نے "اے بائیوگرافی آف دی پرافٹ،انٹروڈکشن "میں لکھا تھا کہ مغرب کے دانشوروں نے اسلام کو ایک کفر آمیز عقیدہ سمجھ کر دھتکارا اور پیغمبر اسلام ﷺپر (نعوذ باللہ) بہتان طرازی کی اور اسلام کو پُرتشدد دین کے طور پر پیش کیا ، مگر اسلام اپنی اندرونی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دنیا میں ڈٹا رہا اور دنیا میں عروج اور بلندی کا حامل ہو ا۔ ایچ جی ویلز نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی کہ اسلام اس لیے دنیا پہ چھا گیا کہ وہ اپنے زمانے کا سب سے عمدہ معاشرتی اور سیاسی نظام تھا ، وہ جہاں بھی گیا اس نے پسماندہ ، غیر منظم، زخم خوردہ اور غیر متمدن لوگ اور ان پر نامعتبر اور خود غرض حکمران دیکھے ، جن کا اپنے عوام سے کوئی رابط اور تعلق نہ تھا ، جو لُٹے ہوئے ، ستائے اور خوفزدہ تھے ۔ اسلام نے ان کے زخموں پر مر ہم رکھا ، یہ اکیلا ہی سب سے زیادہ کشادہ ، تروتازہ ، صاف ستھرا، ہمدرد، غمگسار ، لائق توجہ ، قابل ِ عمل اور بنی نوع انسان کو ، کسی بھی دوسرے نظریے اور نظام سے بہتر طرزِ معاشرت اور اسلوبِ زندگی پیش کرنے والا نظریہ اور دین قرار پاگیا۔ساتویں صدی کے اوائل میں ، عرب کی سرزمین پر ہدایت کاجو آفتاب طلوع ہوا ، اس کا نظامِ فکر و عمل اتنا طاقتور، موثر اور مضبوط تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ، صرف سوسال کے عرصے میں ، مشرقِ وسطیٰ، ایران، ہندوستان اور شمالی افریقہ کو متاثر کرتے ہوئے ، اسپین تک پہنچ کر ، یورپ کے دروازے کھٹکھٹانے لگا۔ انسانی تاریخ میں ا س سے پہلے ، کسی فکر ی نظریئے یا آئیڈیالوجی کو اتنا عروج، دوام یا قبول ِ عام میسر نہ آیا۔ لیکن جس قدر پسندیدگی، اسی قدرمزاحمت ، بلکہ اس تفوق اور عروج کا اس قدر خوف کہ یورپ ایک عظیم تہذیب پیدا کر لینے کے باوجود ، مسلم سطوت اور شکوہ کے پرانے دبائو سے باہر نہیں نکل سکا ، "اسلاموفوبیا" اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ ہندوستان میں آریائوں کی یورش کے بعد، جب یہاں اسلام کی باری آئی تو اس کے مغربی کنارے کے ذریعے ، مقامی لوگوں کے عربوں سے تجارتی تعلقات پہلے سے قائم بھی تھے اور قدیم بھی ، جس پر عربوں کی گرفت اور فوقیت مسلمہ تھی ، لیکن یہاں اسلام کی رَوپہلی کرن تجارت کے ذریعے نہیں، بلکہ تصوّف کے ذریعے پہنچی۔بر صغیر ، جوکہ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش پر مشتمل ہے ، تاریخ کے ابتدائی دور ہی سے "ہند" کے نام سے معروف ہے ، قدیم زمانے میں جب بھی کوئی قوم یہاں باہر سے وارد ہوئی ، تو مغرب ہی کے راستے آئی ، یا بحیرہ عرب سے یا شمال مغرب کے پہاڑی درّوں سے عہد ِ عثمانی میں ، عراق کے گورنر کو ہندوستان کی بابت معلومات اخذ کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی ، تو اس نے بعد از جائزہ و تفصیلی سروے ، دارالخلافہ میں رپورٹ ارسال کی کہ پانی کی قلّت ہے ، پھلوں کی کمی ہے اور ڈاکو نڈر ہیں ، اگر تھوڑی فوج بھیجی گئی ، تو وہ سب قتل ہوجائیں گے اور زیادہ بھیجی تو سب بھوک سے ہلاک ہوجائیں گے ۔ اس ابتدائی رپورٹ کے بعد ہندوستان کی طرف توجہ سے اِعراض کیا گیا ۔ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد 712ء میں سند ھ پر قبضے کا ایک جائزہ اور سنجیدہ موقع اس وقت میسر آگیا ، جب عربوں کا ایک جہاز سندھ کے ساحلوں پہ لوٹ لیا گیا ، راجہ داہر کی ہٹ دھرمی نے سندھ پر حملے کا جواز پید ا کردیا اور محمد بن قاسم کی قیادت میں شیراز اور مکران کے ساحلی علا قوں سے ہوتی ہوئی ، خشکی کے راستے فوج یہاں پہنچ گئی ، راجہ داہر مارا گیا اور اس کے دارالحکومت پر قبضہ ہوگیا ۔ مقامی آبادی کی اطاعت اور جزیہ کی ادائیگی کے سبب مزید معرکہ آرائی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی ۔یہ محض فوجی مہم تھی ، اس میں دعوت و تبلیغ کا اہتمام نہ تھا ، تاہم مقامی لوگوں اور فاتحین کے درمیان بُعد یا عداوت کے جذبات یا تشدّد کا ماحول نہ تھا، ہندوئوں کی مذہبی کتابوں کی تقدیسی حیثیت کو مُسلم رکھا گیا ، مقامی لوگوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا گیا ۔