بھارت اور امریکہ کے تعلقات کی تازہ صورت گری کے اجزائے تراکیبی کیا ہیں اور اس میں پاکستان کے لیے امکانات کیا ہیں اور خدشات کی نوعیت کیا ہے؟ ۔۔۔۔ اب جب انتخابی معاملات ایک ہفتے کے لیے تھم چکے ہیں اور اگلی تاریخ سماعت ستائیس مارچ ہے تو کیوں نہ اس اہم سوال پر غور کر لیا جائے۔ ان دنوں میں دو اہم بیانات سامنے آئے ۔ ایک کرٹ کیمبل کا اور ایک ستیا پال ملک کا۔ کرٹ کیمپبل کا کہنا ہے کہ بھارت امریکہ کا اتحادی نہیں ہے اور ستیا پال ملک کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملہ مودی کے علم میں تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ یہ وقوعہ ہو جائے تو اس کا الزام پاکستان پر عائد کر کے سیاسی فوائد سمیٹے جائیں۔ان دونوں بیانات میں ہمارے سوچنے سمجھنے اور اس پرمتحرک ہونے کا بہت سارا سامان موجود ہے۔ دونوں شخصیات اہم ہیں۔ کرٹ کیمپبل امریکی سفارت کار ہیں۔ اوباما کے دور میں وہ اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ایسٹ ایشیاء اور پیسیفک افیئرز رہے ۔بائیڈن نے اقتدار سنبھالا تو پہلے ہی دن انہیںانڈو پیسیفک کے معاملات کا نیشنل سکیورٹی کونسل ایڈوائزر مقرر کر دیا۔ستیا پال ملک مقبوضہ کشمیر کے آخری کٹھ پتلی گورنر تھے۔ یعنی جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا ریاستی تشخص پامال کرتے ہوئے پامال کرتے اسے ناجائز طور پر بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا تو ستیا پال گورنر تھے۔ کرٹ کیمپبل کی بات بڑی ذو معنی ہے ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت امریکہ کا حلیف نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ خود سے ایک قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ حلیف نہیں ہے تو امریکہ اور اس کے تعلقات کی آئندہ صورت گری کے خدو خال کیا ہوں گے۔ کرٹ کیمپبل کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ امور خارجہ میں ایک Intended ambiguity ہوتی ہے اور کرٹ کیمپبل کا بیان اسی دانستہ ابہام کی ایک مثال ہے۔ امریکہ بھارت کو حلیف نہیںسمجھتا ، یہ تو قابل فہم ہے۔ بھارت نام بھلے جمہوریت کا لے لیکن یہ ایک ہندو فاشسٹ ریاست ہے۔ یہ نہ صرف اس خطے کے لیے ایک امتحان ہے بلکہ آگے چل کر یہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی ایک امتحان ہی بنے گا بھلے وہ اس وقت بھارت سے جڑے معاشی امکانات کی وجہ سے اس پہلو کو نظر انداز ہی کیوں نہ کر دے۔ امریکہ اگر چین کے مقابل اسے کھڑا کرنے کے لے اس کا حجم بڑھانا چاہتا ہے اور ایک ہی سانس میں اسے حلیف قرار نہ دینے کی بات کر کے اسے ایک ’بڑی قوت‘ کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا ایک ایسا مس ایڈ ونچر ہو گا جسے خود امریکہ بھی یاد رکھے گا۔بھارت کو علاقے کا پولیس مین بنانا اور اس کے ذریعے خطے کی پولیسنگ کرنا ، یہ وہ غلطی ہو گی جو پورے خطے ہی تباہی سے دوچار نہیں کرے گی بلکہ اس کے اثرات اس سے بھی زیادہ مہلک ہوں گے۔ جمہوری بھارت ، ہندتوا سے ہوتے ہوئے اب مودتوا ڈاکٹرین کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ انسانیت کے لیے ایک کڑا امتحان ہو گا۔ ستیا پال ملک کے تازہ انکشافات اس خطرے کی اولین دلیل سمجھے جانے چاہییں۔ پلوامہ کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت میں ایک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ پاکستان نے غیر معمولی تدبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ورنہ بھارت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ پلوامہ ہی تھا جسے بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی اور جوابی کارروائی میں اپنے جہاز تباہ کروا بیٹھا اور اس کا پائلٹ ابھے نندن یہاں گرفتار ہو گیا۔ یہیں سے چائے کا وہ کپ بھارتی ہزیمت کی علامت بن گیا جو ابھے نندن کو پلایا گیا تھا۔ ڈھٹائی کا عالم مگر یہ تھا کہ اس گرفتار پائلٹ کو جب پاکستان نے خیر سگالی کے طور پر واپس کیا تو بھارت نے اسے بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ دے دیا۔پیشہ ور طعنہ ن پھر بھی مطالعہ پاکستان پر گرہ لگاتے ہیں ۔ اب یہی واقعہ اگر کل مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جائے تو کیا اس نامراد پائلٹ کو سورما قرار دیا جائے ؟ اس وقت بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا اور اسے دنیا میں تنہا کرنے کی پوری سی کوشش کر ڈالی۔ مودتوا ڈاکٹرین نے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کے خطرات پیدا کر دیے۔ جب خطے مین کسی نفسیاتی مریض کے پاس قیادت آ جائے جو ان پڑھ اور جاہل بھی ہو اور ساتھ ہی متعصب اور انتا پسند بھی تو پھر خطہ بحران سے دوچار ہو جاتا ہے۔مودی اس خطے کا ایسا ہی ایک بحران ہے۔ اب جب پلوامہ کا سارا قصہ مودی کے اپنے گورنر نے بیان کر دیا ہے کہ کس طرح مودی نے جان بوجھ کر یہ سب کروایا تا کہ پاکستان پر اس کا ملبہ ڈالا جا سکے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کا ’ کائونٹر نیریٹو‘ کہاں ہے؟ہمارا ڈپلو میٹک آفنسو کہاں ہے؟ہماری پارلیمان کا کوئی ہنگامی ا ور خصوصی اجلاس کیوں نہیں بلایا جا سکا؟ ہم دنیا کے سفارت کاروں کو اس خطرے سے آگاہ کیوں نہیں کر رہے جو مودتوا کی صورت میں خطے پر منڈلا رہا ہے۔کیا پارلیمان اور کیا صحافت ، کسی کو انتخابی تنازعات سے فرصت ہی نہیں کہ قومی امور بھی قومی بیانیے کا حصہ بن سکیں۔ کسی بھی ملک کی قوت کا انحصار اس کے داخلی استحکام پر ہے۔ داخلی استحکام ہو گا تو م معیشت بہتر ہو گی ا ور داخلی استحکام ہو گا تو امور خارجہ کی صورت گری بھی ہو سکے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب پلوامہ کی حقیقت مودی کے اپنے گورنر نے بیان کر دی ہے چاہے تو یہ تھا کہ مودی کا یہ شرمناک اقدام ہی اس وقت ہماریبیانیے کا محور ہوتا اور ہم کوئی ڈپہلومیٹک اور انفارمیٹو آفینسو لانچ کرتے ۔ ہم دنیا کو مودتوا سے لاحق خطرات سے آگاہ کرتے اور ہم مودتوا کے بارے میں دنیا بھر میں حساسیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ، ہم اپنے داخلی جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کسی ایک سیاسی رہنما نے اس پر بات کی ہو توبتا دیجیے۔یعنی پاکستان پر دہشت گردی کا ایک جھوٹا الزام لگایا گیا ، پاکستان کے خلاف دنیا بھر میںایک مہم برپا کر دی گی ، پاکستان پر ایک جنگ مسلط کر دی گئی ، پاکستان پر باقاعدہ ایک حملہ کیا گیا اور آج یہ ثابت ہو گیا کہ اس واقعے میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور یہ سب مودی کا اپنا کیا دھرا تھا تو بجا ئے اس کے کہ ہماری طرف سے اب جوابی سفارتی اور ابلاغی تحرک کا مظاہری کیا جاتا ، ہم اس پر بات کرنے کے بھی رودار نہیں۔ برا ہو اس داخلی سیاست کا اور اس میں گوندھ دی جانے والی اس تازہ نفرت کا ، ہمیں نہ سر پر منڈلاتے خطرات کا کوئی احساس ہے اور نہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ ہے کہ کیسے کیسے امکانات ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے اور جواب یہ ہے کہ ہمیں سیاست ہو گئی ہے۔