اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے کہ اس سے نہ تو عوامی مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکا ہے اور نہ ہی یہ اپنی کارکردگی کے تناظر میں جمہوری سماج کی ترقی میں کوئی کردار ادا کر سکا ہے۔ چھئتر(76 ) سال کی سیاسی اور غیر سیاسی تاریخ اسی ناکامی پر استوار رہی ہے۔ دستوری تقاضے کے مطابق پارلیمانی جمہوریت سیاسی نظام کی بنیاد ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا سیاسی راستہ پاکستان جیسے مشکل اور پیچیدہ وفاق کے لئے بہتر بھی نہیں ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس سارے سیاسی سفر میں نہ تو پارلیمنٹ کا وقار قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی سماج میں جمہوری سیاسی اقدار پنپ سکی ہیں ۔ اس صورتحال کی ذمہ داری اگرچہ بیشتر داخلی ( سیاسی ) اور خارجی ( غیر سیاسی ) عوامل پر عائد کی جاتی رہی ہے مگر اہم اور بنیادی خرابی اس انتخابی نظام میں ہے جو ، انتخابات کے تواتر کے باوجود ، اسے جمہوری مزاج اور جمہوری اقدار سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہاہے ۔ پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام عوامی طاقت کا سرچشمہ ہونے کے بجائے سماج کے متمول اور با اثر روایتی گھرانوں کے اقتدار کا وسیلہ بن چکا ہے۔ اس نظام کے تسلسل سے حکمران خاندانوں کا ایک ایسا مضبوط طبقہ وجود میں آچکا ہے جس نے نہ صرف سیاسی نظام کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے بلکہ ریاست کے معاشی وسائل پر بھی اپنا استحقاق مستحکم کرلیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ بات اگرچہ درست ہے کہ قیام پاکستان سے قبل ہونے والے انتخابات ( 1946 ) میں مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے موجودہ پاکستان کے علاقوں بالخصوص پنجاب میں بڑے جاگیر داروں LORDS ) FEUDAL ) اور با اثر سجادہ نشینوں CUSTODIAN OF SHIRNES ) ) کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی ترغیب دی تھی جو اس وقت کے حالات کی مناسبت سے ایک کامیاب (مگر عارضی) سیا سی حکمت عملی تھی جو نتیجہ خیز بھی رہی مگرقائد اعظم کی جلد رحلت کے باعث یہ حکمت عملی بوجوہ سیاسی نظام کا مستقل حصہ بن گئی۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان جو مشرقی پنجاب کی ایک ریاست کرنال (موجودہ صوبہ ہریانہ کا ایک ضلع) کے نوابزادہ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے حلقہ ء انتخاب سے محروم ہوجانے کے بعدان کاسیاسی مستقبل ان ہی با اثر خاندانوں کی تائید و حمایت سے وابستہ ہو چکا تھا لہذا حالات کے اس جبر کے تحت وہ صورتحال کو بدلنے کی جرا ت نہیں کرسکے اور یوں پاکستان کی سیاست جمہوریت کے نام پر ایسے خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتی رہی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ ایسے نظام کے زیر اثر سیاسی ادارے کمزور رہے ،مراعات یافتہ طبقات مضبوط ہوتے رہے اور عوام محض ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت سے دوچار رہے۔ پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں یہ اگر جمہوری اقدار کے مطابق مستحکم اور فعال ہوں تب ہی یہ سیاسی نظام میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرنے کی اہل ہوسکتی ہیں۔ورنہ بصورت دیگر ان کا داخلی نظم ہی اگر جمہوری اصولوں کے مطابق استوار نہ ہو ، جیسا کہ پاکستان کی تمام ہی بڑی جماعتوں میں اس کا فقدان ہے، تو پھر جمہوری سیاسی نظام جمہور کے لئے ایک تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے نزدیک پا رلیمنٹ کے انتخابات کے لئے نہ توسیاسی جدوجہداہمیت رکھتی ہے اور نہ ہی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ اہلیت قابل غور سمجھی جاتی ہے ۔ تمام ہی سیاسی جماعتیں کچھ استثنا کے ساتھ اپنے قریبی رشتہ داروں ،دوستوں اور عزیزوں کو پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔آٹھ فروری 2024 ء کو ہونے والے انتخابات کے بعد یہ تاثر مذید گہرا ہوا ہے۔ان انتخابات کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے جو امیدوار سامنے آئے ان میںایک اخباری رپورٹ کے مطابق 8 خاندانوں کے 43 افراد شریک ہوئے جن میں چودھری ظہور الہٰی،رانا پھول محمد،مولانافضل الرحمن، آصف علی زرداری،گجرات کے گوجر خاندان،شریف خاندان،کھوکر اور خٹک خاندان شامل ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق صدر پاکستان آصف علی زرداری ، کے بیٹے بلاول بھٹوقومی اسمبلی جب کہ ان کی دو بہنیں فریال تالپوراور عذرا پیچوہو سندھ اسمبلی کی رکن ہیں جب کہ بہنوئی میر منور تا لپور قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ آصف علی زرداری کی قومی اسمبلی کی چھوڑی ہوئی نشست پر اب ان کی چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو قومی اسمبلی کی رکن بننے جارہی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ان کے بھائی نواز شریف اور بیٹا حمزہ شہباز رکن اسمبلی ہیں جب کہ ان کی بھتیجی اور نواز شریف کی بیٹی وزیر اعلی پنجاب ہیں۔مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے ، ان کے بیٹے عطا الرحمن سینٹ کے اور لطف الرحمن خیبر پختون خوا کے رکن ہیں ۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سینٹ میںہیں جب کہ ان کے تین بیٹے قومی اور پنجاب اسمبلی میں براجمان ہیں ۔اس طرح کی اور بھی مثالیں پاکستان کے سیاسی نظام کے اصل چہرے کو نمایاں کردینے کے لئے کافی ہیں۔ سیاسی نظام کے اس تسلسل سے جمہوری سیاست اور قومی اداروں پر عوام کا اعتماد مسلسل کم ہو رہا ہے ۔وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیاں فاصلے بڑھ رہے ہیں ۔ اور ریاست کا عالمی تشخص ایک غیر مستحکم،غیر محفوظ اور غیر جمہوری ریاست کا حامل ہو چکا ہے۔ داخلی سلامتی کے مسائل روزانہ کی بنیاد پر پیچیدہ اور مشکل ہو رہے ہیں ۔قومی معیشت عالمی اداروں کی محتاج ہو چکی ہے۔جمہوری سیاسی نظام پر عوام کی کمزور گرفت کے باعث پاکستان میں مضبوط سماجی طبقات ، گروہ اور ادارے اس نظام پر بالادست ہو چکے ہیں اور یہ سیاسی نظام عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ سیاسی اور انتخابی نظام میں جب تک بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جائیںگی مراعات یافتہ خاندان جونک کی طرح اس سیاسی نظام سے چمٹے رہیںگے۔ لہذا اب وقت آچکا ہے کہ سیاسی نظام کی کمزوریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور ایک ایسے سیاسی نظام کی طرف پیشرفت کی جائے جو حقیقی طور پر عوام کا نمائندہ ہو اور اس کی حکمرانی کے قیام کا باعث ہو ۔اس کے لئے مقامی سطح پر با اختیار شہری حکومتوں کا قیام پہلا قدم ہو نا چاہیئے۔اس سلسلے میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے اصحاب فکر و دانش ، مختلف پیشہ وارانہ تنظیموں اور ابلاغ کے اداروں کو با معنی اور نتیجہ خیز گفتگو شروع کرنی چاہیئے۔