جمہوری ملکوں میں انتخابات اقتدار کی پر امن منتقلی اور ملک اور قوم کی بہتری کیلئے کرائے جاتے ہیں۔ ہمار ے ملک میں انتخابات ملک کو بہتری کی راہ پر ڈالنے کی بجائے لوگوں کو مزید پریشانیوں میں دو چار کرتے رہے ہیں۔ 1947 سے 1958تک نہ تو یہاں انتخابات ہوئے اور نہ ہی آئین بن سکا۔ ایوب خان نے اکتوبر 1958میں مارشل لاء لگا کر ملک میں صدارتی نظام کا تجربہ کیا اور 1962ء میں ملک کو آئین دیا۔ اس آئین کی بنیاد، بنیادی جمہوریت پر رکھی گئی ۔ یہ ایک بالواسطہ جمہوریت تھی۔ جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں چالیس چالیس ہزار کونسلرز منتخب کیے جاتے تھے۔ یہ اسی ہزار کونسلر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو منتخب کرتے تھے۔ یہ اسی ہزار افرار صدر کو بھی منتخب کرتے تھے۔ ایوب خان کے صدارتی نظام کومتروک کر دیا گیا تھا۔ 1964ء میں جب قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی اُمیدوار بنیں تو انہیں اسی ہزار کونسلروں کے ’’الیکٹرول کالج‘‘ کے ذریعہ ہرا دیا گیا۔ اس انتخابی دھاندلی نے ایو ب خان کی حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ رہی سہی کسر 1965ء کی جنگ نے پوری کردی۔ 1966کے معاہدہ تاشقند کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام ایوب حکومت کے خلاف سٹرکوں پر آگئے۔ایوب خان کے خلاف تحریک 1969ء جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کی شکل میں ختم ہوئی ۔ جنرل یحییٰ خان نے بالغ رائے رہی کی بنیاد پر 1970ء میں الیکشن کرائے۔ دسمبر 1970ء میں ہونے والے اسی الیکشن میں مشرقی پاکستان کے مقبول لیڈر شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کر لی ۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بڑے بڑے بُرج اُلٹ دئیے ۔ ان انتخابات مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو عوام کے نمائندے بن کر اُبھرے ۔ انتقال شیخ مجیب الرحمن کو دینے کی بجائے مشرقی پاکستان میںفوج آپریشن شروع کر دیا گیا جس کے شیخ میں پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ مارچ1977 ء میں جب 1973ء کے آئین کے تحت مسٹر بھٹو نے اس منصوبے کے تحت انتخابات کرائے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے اپوزیشن کو بے اثر بنا دیں گے اور بڑے بڑے منصوبے شروع کرکے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنائیں گے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے 7مارچ1977کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں بیشتردھاندلی ہونے کے باعث مسٹر بھٹو کی اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابات کو مسترد کر دیا اور ملک گیر ایجی ٹیشن شروع ہوگئی ۔ 5جولائی 1977ء جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں نوے دن میں انتخابات کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن نو ے دن کی بجائے جنرل ضیاء الحق گیارہ سال تک حکمرانی کرتے رہے۔ اگر سترہ اگست 1988 ء کو وہ بہاولپور میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو مزید حکومت کرتے رہتے۔ جنرل ضیا ء الحق نے امریکی اور مغربی ملکوں کے دبائو کے تحت 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے۔ ان انتخابات کا ملک کے صف اوّل کے سیاست دانوں نے بائیکاٹ کر دیا جس سے بالکل نئے اور ناتجربہ کار سیاست اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ موجودہ سیاست دانوں کی اکثریت 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی پیداوار ہے۔ جنرل ضیا ء الحق نے مارشل لاء تو اُٹھایا لیکن آئین میں ترمیم کرا ئی جس کے ذریعے فوج نے اس نئے جمہوری نظام پر اپان کنڑول برقرار رکھا۔ آرٹیکل 58(د) کے تحت اگست1990ء میں بے نظیر حکومت کو چلتا کیا گیا۔ 1992ء میں نواز شریف کو گھر بھیجا گیا۔ 1993ء میں بے نظیر کو دوسری مرتبہ نکال باہر کیا گیا۔ اور پھر1999 ء میں نواز شریف حکومت کو ہٹا کر مارشل لاء لگا دیا گیا۔ 2009ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریت میں آنے کے بعد اقتدارمیں آگئی ۔ 2013ء میں مسلم لیگ(ن) کو مل گیا۔ 2018ء میں متقدر حلقوں نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپٹ لیڈر شپ سے جان چھڑا کر تحریک انصاف کو آزمایا لیکن جلد ہی تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے والے خان سے مایوس ہوگئے۔ اپریل 2022کو تحریک انصاف کی عدم اعتماد کے ذریعے چھٹی کر دی گئی ۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی آنے کی بجائے سیاسی انتشار اور افراتفری میں اضافہ ہوتا رہاہے۔ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا خواب گزشتہ پچھتر 75 برس میں پورا نہیں ہوا۔ ہر انتخاب کے نتیجے میں سیاسی محاذ آرائی بڑھتی گئی ۔ یہاںجمہوری نظا م کو لپیٹا گیا۔ ایک مرتبہ پھر 8 فروری2024کو انتخابات ہونے جار رہے ہیں۔ اب انتخابات سے پہلے کا جو ماحول ہے اور جس طرح سیاسی جماعتیں آٹھ فروری کے انتخابات کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور لیول پلینگ فیلڈ فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں اُس سے اندازہ ہوتاہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات بھی پاکستان میں جمہوری اور سیاسی استحکام لانے کا پرانا پورا نہیں پائیں گے۔ ملکی معیشت تو ایک طرح سے وینٹی لیٹر پرہے۔ معاشی گروتھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا غیر ملکی قرضہ چڑھا ہوا ہے۔ جسے اُتارنے کے وسائل موجود نہیں شاید ہی دنیاکا کوئی ملک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہوگا جس کے ہم مقروض نہیں ہیں۔ صنعتیں ترقی نہیں کر رہیں۔بر آمدات مطلوبہ میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ لیکن ادارے ناکارہ ہو چکے ہیں۔دنیا کے جمہوری ملکوںمیں انتخابات کے ذریعے نہ صرف حکومت تبدیل ہوتی ہے بلکہ پہلے کے مقابلے میں بہترحکومت اقتدار میں لائی جاتی ہے۔ تاکہ مسائل حل ہو سکیں۔ یہاں اُلٹی گنگا بہتی رہے ہے اور اب بھی ایسا لگ رہا ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں بہتر حکمرانی کی شاید پوری نہیں ہو سکے گی ۔