قانون کے مزید مطالعے سے، مگر یہ خوش فہمی بھی دور ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قانون کے اندر ہی یہ اہتمام موجود ہے کہ قانون کی روح کو پامال کر دیا جائے۔ اہتمام کے ساتھ ایک ایسا نا قابل عمل قانون بنایا گیا اور پھر اس کے اندر ایسے تضادات رکھے گئے کہ بظاہر شاندار قانون سازی سے پارلیمان بھی سرخرو ہو جائے لیکن عملی طور پر معاملات جوں کے توں رہیں اور سیاسی اشرافیہ کی باہمی دل چسپی کے امور بی متاثر نہ ہوں۔ یہ تضادات بہت نمایاں اور واضح ہیں۔ ایک جانب دفعہ 132 کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ امیدوار یا اس کی پارٹی یا اس کی طرف سے کوئی اور آدمی بھی خرچ کرے گا تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خرچ اس امیدوار نے کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب اسی شق کی ذیلی دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اور آدمی کچھ خرچے کرتا ہے تو جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے امیدوار کی اجازت سے یہ خرچ کیا ہے تب تک ان کا ذمہ دار امیدوار نہیں ہو گا نہ ہی ان خرچوں کو امیدوار کے اخراجات سمجھا جائے گا۔ یعنی ایک آدمی بھلے ایک امیدوار کے لیے اخراجات کرے،اس کے جلسے کے انتظامات ہوں،اس کے پوسٹرز بینرز بنوانے ہوں، کھانے پینے کا بندوبست ہو،گاڑیاں فراہم کی ہوئوں اور کروڑوں لگا دے قانون کا مزاج برہم نہیں ہو گا۔قانون صرف اس صورت میں لاگو ہو گا،جب یہ ثابت ہو جائے کہ اس آدمی نے یہ اخراجات امیدوار کی اجازت سے کیے تھے۔ غور فرمائیے یہاں with the permission کے الفاظ ہیں، knowledge کے الفاظ نہیں ہیں۔ یعنی اگر کسی امیدوار کی دو چار لوں سے کوئی انڈس سٹینڈنگ ہے اور وہ اس کے نام پر کروڑوں لگا دیتے ہیں کہ یہ جیت گی تو سارے حساب قومی خزانے سے پورے کرلیں گے تو قانون کو اس واردات سے کوئی غرض نہیں۔ کسی نے قانون کے دروازے پر دستک دی تو قانون پوچھے گا کہ ٹھیک ہے تمہارے پاس یہ ثبوت تو ہے کہ فلاں بندے کے فلاں امیدوار کے لیے دس کروڑ خرچ کر دیے لیکن کیا تمہارے پاس یہ ثبوت بھی ہے کہ اس نے امیدوار کی اجازت سے یہ خرچ کیا تھا۔ نہ یہ اجازت ثابت ہو گی، نہ قانون کا نفاذ ہو گا۔ یعنی نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ قانون موجود ہے، اقوال زریں کی صورت ماحول کو منور کر رہا ہے لیکن اس میں تجربہ کاروں کے دست ہنر نے ایسا کمال دکھا دیا ہے کہ اس قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ قانون ' اجازت ' کے ثبوت طلب کرے گا، اخراجات کے ثبوت تو مل سکتے ہیں، یہ اجازت کے ثبوت کہاں سے آئیں گے؟ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 134 کے تحت انتخابات کے بعد امیدواران فارم سی پر اپنے اخراجات کی تمام تفصیل ریٹرننگ افسران کو جمع کرائیں گے۔ اس کے بعد دفعہ 136 کے تحت ان کی سکروٹنی ہو گی کہ یہ تفصیلات درست ہیں یا غلط۔ الیکشن ایکٹ اس کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ یہ سکروٹنی کیسے ہو گی؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس کوئی قاعدہ، ضابطہ اور طریق کار موجود ہے جس سے وہ امیدواران کے اخراجات کی جمع کرائی گی تفصیل کو جانچ سکے کہ یہ درست ہیں یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن نے کوئی ذیلی ادارہ بنا رکھا ہے، جو انتخابی مہم کے دوران جائزہ لے سکے کہ کس امیدوار نے کتنے اخراجات کیے؟ کوئی ہے تو اس کا نام کیا ہے؟ وہ کام کیسے کرتا ہے؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا کہیں کوئی انتظام کیا جاتا ہے کہ ہر حلقے کے انتخابی اخراجات پر نظر رکھی جائے؟ کیا الیکش کمیشن کے پاس کوئی نظام موجود ہے جو ہر حلقے اور ہر امیدوار کے اخراجات کا خود جائزہ لے یا کم از کم اتنا با خبر ضرور ہو کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ امیدواران نے اخراجات کی جو تفصیل جمع کروائی ہے وہ درست یا جعلی ہے؟ اگر ایسا کوئی انتظام نہیں ہے اور سب کچھ امیدواران کے جمع کردہ اعداد شمار پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے تو کیا اس سے انتخابی اخراجات کو مقرر کردہ حدود میں رکھا جا سکتا ہے؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ 15 لاکھ میں سینیٹ کا الیکشن لڑا جا سکے یا 20 لاکھ میں صوبائی اسمبلی اور 40 لاکھ میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا جا سکے ۔ اتنے پیسوں میں تو حلقے بھر میں انتخابی کیمپ نہیں لگائے جا سکتے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم تو الیکشن والے دن کے انتظامی معاملات اور ٹرانسپورٹیشن پر خرچ ہو جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس سارے عمل میں با معنی اصلاح کی جائے اور انتخابی اخراجات کو کم کیا جائے یہاں دکھاوے کے لیے ایک قانون بنا دیا گیا ہے ا ور اس قانون کے تحت ایک رسمی کارروائی کر کے امیدواران اور الیکشن کمیشن سب مل جل کر ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کے حقیقی اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور الیکشن ایکٹ کے تحت جمع کرائی تفصیلات جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن خاموش رہتا ہے اور جیت کر ایوان میں پہنچنے والے اراکین سچے، پاک باز، نیک، دیانت دار، امین اور پارسا سمجھے جاتے ہیں۔ سکروٹنی کے عمل کو نا معتبر بنانے میں اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو وہ الیکشن ایکٹ کی دفعہ 136 کی ذیلی دفعہ 2 میں پوری کر دی گئی ہے۔ اس میں بڑا دلچسپ نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن امیدواران کی جانب سے انتخابی اخراجات کی جمع کرائی گئی تفصیل کی سکروٹنی قانون میں دی گئی مدت (نوے دن) کے اندر مکمل نہیں کر سکا تو اس صرت میں کیا ہو گا؟ لکھا ہے کہ اس صورت میں سمجھا جائے گا کہ ان کی سکروٹنی مکمل ہو گئی ہے اور یہ جمع کرائے گئے اعدادو شمار درست ہیں اورانہیں قبول کر لیا گیا ہے۔ خود ہی ایک قانون بنایا، خود ہی اس میں تضادات رکھے، خود ہی اسے بے معنی اور بے اثر کر دیا بنایا۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری مشق کا مقصد کیا تھا؟ کیا قانون سازی ایسے ہوتی ہے؟ جب اس طرح کے قانون بنتے ہیں تو وہ نہ قابل عمل ہوتے ہیں نہ کوئی ان پر ان کی روح کے مطابق عمل کرا پاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی ایسا چاہتا بھی نہیں کیوں کہ جن پر عمل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے یا جن پر عمل کرانے کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ دونوں سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ اقوال زریں ہیں ، انہیں پڑھ کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف کارروائی ان کے مطابق ڈال کر فائلوں کا پیٹ بھرلینا چاہیے تاکہ قانونی طور پر سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ چنانچہ زمین پر قانون پامال ہوتا رہتا ہے اور کاغذات میں سب کچھ قانون کے مطابق ہو رہا ہوتا ہے۔ جو اراکین پارلیمان ہیں وہ آرٹیکل باسٹھ کے تحت نیک پاک متقی اور پارسا ہوتے ہیں اور الیکشن جملہ واردات کے باوجود قانون کے مطابق اور صاف اور شفاف قرار پاتے ہیں اور انتخابی اخراجات کی حد کہیں پامال نہیں ہوئی ہوتی۔ ( ختم شد)