میرے دل میں ہنستے رستے بستے اورینٹل کالج کی نکڑ پہ چونتیس سال سے گنوں کے گُن چھانٹتے اور آتے جاتے بے رَس لوگوں میں رَس کی شیرینی بانٹتے بُوٹے، ذرا وَن سوَنّے گاہکوں سے نظر بچا کے میرا سلام قبول کرو! بُوٹے! مَیں تمھیں کیسے بتاؤں کہ جب تم مجھے دُور سے دیکھ کے ریڑھی کیساتھ کھڑے کیے گٹھے میں سے گزٹیڈ قسم کا گنا ڈھونڈکے اُسے مشینی دانتوں سے ٹُٹ پَینے (Disposable) کاغذی گلاس میںپودینے کی شاخ اور لیموں کی کاش کیساتھ نچوڑتے ہو تو تم پہ ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔ پیارے بُوٹے! جن ٹُوٹے پھُوٹے رستوں کے چوراہے پہ تم گزشتہ ساڑھی تین دہائیوں سے گنے کا کھیل، کھیل رہے ہو، تمھیں خبر بھی ہے کہ ان راستوں پہ اُڑتی ہوئی دُھول، کتنے کج کلاہوں کی آنکھوں کا سُرمہ رہی ہے۔ یہاں کے ایک ایک انچ پہ پڑنے والے قدموں نے کتنے شاہی مزاجوں کا خون کیا ہے۔ یہاں سے شاپنگ کے بہانے بانو بازار کا راستہ ناپنے والی بل کھاتی کمروں والی قُمریاں کہ بقول شخصے جن کی کمر یں پہلی رات کے دو چاند کمر سے کمر ملا کے کھڑے ہونے سے وجود میں آتی تھیں، آج ساسوں کی فرمائش پہ بچے پیدا کرتے کرتے، اپنے ہی گھر کے سب سے بڑے کمرے کا رُوپ دھارے بیٹھی ہیں۔ محمد بُوٹے! تمھیں پتہ بھی ہے کہ ظاہری طور پر چند قدموں پہ ختم ہوتے ان راستوں نے لمحہ لمحہ کلکاریاں مارتے کتنے ہی کھلنڈرے نوجوانوں کو سنجیدگی کا زہر پلا کے گھمبیر ذمہ داریوں کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ تمھاری کم مائیگی کے احساس کو دُور کرنے کے لیے اتنا بتائے دیتا ہوں کہ بعض من چلوں کے لیے اس کوچے سے نکلنا آدم کے خُلد سے نکلنے سے بھی مشکل مرحلہ تھا۔ بعض کے وجدان پہ تو یہاں سے جا کے اپنے اپنے سٹیٹس کی آگ میں جلتے ہوئے بھی کسی نہ کسی لمحے رشک کی وحی ضرور اُترتی ہے۔ بُوٹے! تم اس حقیقت سے کہاں واقف ہوگے کہ اس چوراہے کی خستہ سامانیاں کبھی سر الفریڈ وولنر، مولانا آزاد، ڈاکٹر اقبال، علامہ فیض الحسن سہارنپوری، شبلی نعمانی، پطرس بخاری، پروفیسر آرنلڈ، حافظ محمود شیرانی، مولوی محمد شفیع، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، پروفیسر حمید احمد خاں،ڈاکٹرسید عبداللہ، وزیرالحسن عابدی، ڈاکٹر وحید قریشی، جیسے نابغاؤں کے قدموں کے نشانات سے منور رہی ہیں۔ پطرس کی گاڑی، منٹو کے تانگے، ڈاکٹر نذیر کے سائیکل کے پہیوں کے نشانات تو آج بھی کسی نگھے کھوجی کی مدد سے دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ جموں سے والدین کی خواہش پر تعلیم کے حصول کیلئے لاہور آیا، اُردو کا بے پناہ فکشن رائٹر کرشن چندر، گھوڑا ہسپتال کے پاس واقع ہندو ہاسٹل سے پیدل روانہ ہوتا تو کبھی گورنمنٹ کالج کے اونچے کلس کو سلام کرتا، پھر اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی پہ محبت بھری نگاہ ڈالتا، اس کے ساتھ واقع لاء کالج پہ نظر کرتا، انارکلی کی طرف بڑھتا اور پھر نیلا گنبد میں کنگ ایڈورڈ کے منہ درُوں ہوتے، اپنے ایف سی کالج میں گم ہو جاتا۔ بھولے بھالے بُوٹے تمھیں کہاں خبر ہوگی کہ اس کرشن چندر نے تمھارے اِسی مصروف راستے پر ’ساڑھے تین فرلانگ سڑک‘ کے عنوان سے کیسا باکمال افسانہ لکھا۔ ذرا غور تو کرو کہ سو سال پہلے کے پنجاب کی کل تعلیمی کائنات اسی پندرہ منٹ کی واک میں سمٹی پڑی تھی۔ تمھیں بھی اگر اللہ کبھی فرصت اور توفیق عطا کرے تو ’چونتیس سال کی رَس بھرائی‘ نام کا ایک مضمون تو لکھ ہی سکتے ہو! اور ہاں سنو! یہ تم ہمارے پاپولر کے درخت کی مانند بڑھتے گریڈوں، چمچماتی کاروں، نیلی پیلی پتلونوں اور رنگ برنگی ٹائیوں سے مرعوب نہ ہوا کرو۔ یہ سب خرچہ ہم نے اپنے اپنے اندر کے بُوٹے کو چھپانے کے لیے کیا ہوا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ ہماری اندرونی دہلیز پہ آج بھی ایک ہٹا کٹا بُوٹاتہمد بنیان پہنے، دانت نکالے بیٹھا ہے۔ یوں سمجھ لو کہ ہم بھی اپنے اپنے مقام پہ تمھاری طرح کے بُوٹے ہی تھے، جنھیں بزرگوں نے جگر کا خون پلا پلا کر کچھ زیادہ ہی پال دیا اور ڈگریوں کی ڈگر پہ چلتے چلتے ہم نے ضرورت سے زیادہ پَر پُرزے نکال لیے۔ مجھے اکثر لوگ یہ سوال چار سال سے پوچھتے آ رہے ہیں کہ تمھیں اکیسویں صدی میں، اکیسویں گریڈ کی نوکری کرتے ہوئے، اکیس لاکھ کی کار میں گھومنا کیسا لگتا ہے؟ اکیس کی اس تکرار سے مجھے گاؤں والی وہ مرغی یاد آ جاتی ہے، جو اکیس دنوں میں محض پروں کی حرارت سے چونے جیسے انڈوں کو چوں چوں کرتے چوزوں میں بدل دیتی تھی لیکن اس پہ ذرا بھی تکبر نہ کرتی تھی۔ بُوٹے! سچ کہتا ہوں اپنے اپنے گھر جا کے ہم بھی چپ چاپ بُوٹے کی پوسٹ پہ تعینات ہو جاتے ہیں۔ شاید ایسے ہی کسی شوہر نما شاعر نے گھریلو حالات سے بغاوت کرتے ہوئے کہا تھا: محمد بُوٹیا بُوٹے دا پَٹ بُوٹا بُوٹا رہے نہ کوئی جہان اُتے ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم ہر وقت اتنے خوش کیوں رہتے ہو؟ یہ تمھارے کسمیلے دانت اور پاپی پیٹ کس بات پہ باہر آئے چلے جاتے ہیں؟ اس ادبی ادارے کے سرہانے کھڑے کھڑے تمھیں کہیں میر کی شاعری تو سمجھ آنا شروع نہیں ہو گئی؟ جو فرماتے ہیں: رنگ ہوا سے یوں برسے ہے ، جیسے شراب چواتے ہیں آگے ہو مے خانے کے چلیے مجمۂ بادہ گساراں ہے ذرا میرے کان میں آ کے یہ بھی بتا دو کہ ان چونتیس سالوں میں، گنے کی ساقی گری کرتے کرتے تم پہ کبھی ایسی گھڑی بھی آئی، جب میاں محمد بخش کا یہ شعر تمھارے دل میں ترازو ہو گیا ہو: پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وِچ گنّا رَوہ نوں کہو رَہوہ محمد، ہُن رہوے تے مَنّاں یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے کہ طویل عرصے کے بعد بھی تمھارے گنوں میں وہی رس باقی ہے بلکہ اب تو اس میں شناسائی کی چس بھی شامل ہو گئی ہے لیکن ان تین دہائیوں میں ہمارے مسیحا کی گفتگو، استاد کی جستجو، لیڈر کے بیانات، عالم کے خیالات، ادیب کے احساسات، تاجر کے معاملات میں پہلے والا رَس کیوں باقی نہیں رہا؟