اگر کہا جائے کہ اس وقت پاکستان میں کرپٹ لوگوں کا راج قائم ہے تو یقیناً یہ غلط نہیں ہو گا۔ ملک کے ہر شہر سے شہریوں کے لٹنے کی خبریں ہمہ وقت موصول ہوتی رہتی ہیں۔ بڑے شہر تو ایک طرف اب نسبتاً چھوٹے اور محفوظ سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی لوگوں کی جان و مال کی کوئی حفاظت نہیں۔ اگر کسی نے شوقیہ ڈیپریشن کا مریض بننا ہے تو ٹی وی چلا لے یا اخبار کا مطالعہ کر لے۔ زندگی کی بچی کھچی چند خوشیاں بھی ہوا میں اڑ جائیں گی۔آئی ایم ایف قرضے کی مد میں ملک کو لوٹ رہا ہے،حکمران عوام کو لوٹ رہے ہیں اور عوام ہر مقتدر حلقوں کیساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی لٹ رہے ہیں۔گویا لٹنے لٹانے کی اس گنگا میں سبھی حسب توفیق ہاتھ دھو رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے مجھے اپنے آبائی شہر وہاڑی سے چوری اور دن دیہاڑے ڈکیتیوں کی وارداتیں مسلسل سننے کو مل رہی ہیں۔اپنے گھر کے ساتھ کئی دوست احباب اور رشتے دار بھی چوروں اور لٹیروں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ وہاڑی شہر میں بھی اور گردونواح کے علاقوں سے کئی احباب داستان غم سنا چکے ہیں۔لڈن روڈ وہاڑی ایک بہت مصروف شاہراہ ہے،جو اس شہر کو دوسرے علاقوں سے ملاتی ہے نیز نواحی گاؤں اور دیگر کئی قصبے بھی اسی شاہراہ سے متصل ہیں۔ یہ لوگوں کی آمدو رفت کا بہترین ذریعہ ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مقامی آبادی اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ اسی شاہراہ سے گزر کر لوگ حاصل پور،چشتیاں وغیرہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ یہاں گاڑیوں،موٹر سائیکلوں، مسافر بسوں، ویگنوں، بھاری ٹرکوں کیساتھ ساتھ مقامی رکشہ اور گدھا گاڑی کی بھاری اکثریت اسی شاہراہ کو استعمال کرتی ہیں۔ مہنگائی کا طوفان کیا اٹھا چوروں لٹیروں نے اس شاہراہ کو لوٹنے کی آماجگاہ بنا لیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر کئی موٹر سائیکل،گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔ اب تک کئی راہ گیر اپنی محنت کی کمائی ان ڈاکوؤں کے سپرد کر چکے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مقامی پولیس کسی بھی طرح کا مؤثر کردار ادا کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ اول تو پولیس پہنچتی ہی تاخیر سے ہے اور اگر خوش قسمتی سے پہنچ جائے تو قانونی کارروائی کے آغاز میں بہت تاخیر کی جاتی ہے۔ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنے کیساتھ ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر کی جاتی ہے اور جب تک پولیس یہ کار خیر انجام دیتی ہے، اتنی دیر میں لوٹنے والے نجانے کتنے گھروں اور لوگوں کو لوٹ مار کا نشانہ بنا کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں انصاف کا نظام اور اس سے منسلک تمام لوگ اور ادارے جس سستی،کاہلی اور تاخیر کا مظاہرہ کرتے ہیں،عام عوام اس سے بیزار اور تنگ آ چکے ہیں۔ اول تو لٹنے والے شہریوں کی اکثریت پولیس تھانے کا رخ ہی نہیں کرتی کہ وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، اور اگر میرے جیسا کوئی سر پھرا اور دل جلا انسان تھانے اور پولیس کا رخ کر لے تو دل کی جلن اور کڑھن میں مزید ضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اپنے گھر میں ہونے والی واردات میں ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ لوٹنے والے جو ایک جتھے کی صورت میں رات ڈھائی بجے وراد ہوئے، گھر میں سوئے افراد کو بہت اہتمام کیساتھ گہری نیند سے جگایا اور یہ یقین بھی دلایا کہ آپ اطمینان رکھیں ہم صرف یہاں آپ کی محنت کی کمائی لوٹنے آئے ہیں آپ اور آپ کے اہل خانہ کو ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے بس ہمیں شرافت سے بتا دیں کہ خزانہ کہاں پڑا ہے۔ ورنہ ہمیں اپنی "شرافت" کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ گھر والوں کو بندوق کے سائے تلے ایک ہی کمرے تک محدود کر دیا گیا۔ مبادا باہر سے کوئی بیرونی امداد نا بلا لی جائے اس خدشے کے پیش نظر گھر کے اندرونی و بیرونی حصوں پر ڈاکو برادران نے اضافی نفری بھی تعینات کردی اور اہل خانہ کے تمام موبائل بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ چالیس منٹ کی محنت شاقہ کے بعد اگرچہ مطلوبہ خزانہ ہاتھ نہیں لگا کہ تیس پینتیس ہزار کی حق حلال کی نوکری کرنے والے کے گھر سے آخر کون سی نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہونی تھیں؟ چند ہزار کی جمع پونجی اور مختصر سا زیور برآمد ہونے پر انہیں غالباً مایوسی کا سامنا کرنا پڑا لہذا جاتے جاتے کچن اور فرج کا صفایا کرتے گئے کہ چلو صبح کا ناشتہ ہو جائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ وطن عزیز میں پولیس کے پاس اتنی فرصت ہے نا وقت کہ وہ اطمینان سے پوری دلجمعی کیساتھ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کر سکیں لیکن چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے پاس کھلا وقت ہے کہ وہ جب چاہیں جیسے چاہیں عوام الناس کے سروں پر دندناتے پھریں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وہ جو مرضی اندھیر نگری مچائے رکھیں پولیس اور قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتے اور اگر پہنچ بھی جائیں تو ان ہاتھوں میں نوٹوں کی گرمی بہت جلد اپنا اثر دکھاتی ہے۔ جب تک جان پہچان اور اثر و رسوخ کا ہتھیار استعمال نا کیا جائے یہاں ایف آئی آر درج کرنا بھی ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی باقی پولیس کی مانند وہاڑی شہر کی پولیس نے بھی کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری سے تنگ عوام اب حکمران طبقے کے علاؤہ اس ڈاکو راج سے بھی عاجز آچکی ہے۔ سمجھ سے بالا تر ہے کہ جائیں تو کہاں جائیں ؟ کون سی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں ؟ کس سے جا کے عرضی بیان کریں کہ عام عوام کا دکھ سمجھنے والا کوئی نہیں۔ بے لگام ڈالر کی مانند بے لگام گھومتے ڈاکوؤں اور چوروں کو آخر کون لگام ڈالے گا؟ وہ ادارے جو عوام الناس کی جان و مال کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو تنخواہ ہی اسی بات کی لیتے ہیں کہ ان کے کندھوں پہ لگے ٹیگ انہیں عوام کے محافظ بتلاتے ہیں۔ جب یہ ادارے ناکام ہوں تو لامحالہ یہ ذمہ داری لوگوں کو خود اپنے سر لینی پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری کیساتھ خودکشیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔ کیونکہ غربت اور مہنگائی سے مسلسل لڑتی عوام اب تھک چکے ہیں۔