امیر مینائی، داغ اور حالی کے ہم عصر شعرا میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر اِن تینوں ہستیوں کے کلام اور ذکر سے مہک اٹھتا ہے۔ یہ وہی امیر مینائی ہیںجن کا دلبریاں کرتا یہ شعر تو تمام اہلِ نظر کی زبان پر اور ہر اہلِ دل کے ایمان کے اوپر والے خانے میں رکھا ہے: خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ہماری ایک فیس بک فرینڈ نے موجودہ حالات کے تناظر میںانھی امیر مینائی کا ایک شعر احباب کے ساتھ سانجھا کیا ہے،جس میںموجودہ حکومت کے پیدا کردہ ملکی مسائل اور عوامی بے بسی کی نہایت عمدگی سے عکاسی موجود ہے، شعر دیکھیے: ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے سچ پوچھیں تو تجربہ کاری اور غلبہ پسندی کے زعم میں حکمرانوں کے اس غیر فطری اور غیر فکری اتحاد نے مہنگائی، کذب بیانی،مکر وفریب، انتقامی سیاست، لاقانونیت،ہٹ دھرمی،جھوٹی انا،ہوسِ اقتدار،بے یقینی، بے بسی اور انسانی بے توقیری کے ذریعے آدمیت کی وہ صورت کر دی ہے، جسے امیر مینائی ہی کے اس شعر سے محسوس کیا جا سکتا ہے: آؤ امیر آج یہی مشغلہ سہی ایک روئے اور دوسرا پوچھے کہ کیا ہوا؟ مرزا وضاحت علی خاں، جس نے خبر دی ہے کہ اب صیہونی طاقتیں، آئی ایم ایف اور ہمارے حکمران ایک ہی بات پہ رکے ہوئے ہیں کہ ’عوام کی بوٹی چھوٹی رکھنی ہے یا وڈی؟‘وہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک دن پی ڈی ایم کا مفہوم بتانے کے لیے’’چوں چوں کا مربہ‘‘ والے محاورے کو دعوتِ گویائی دی تو وہ مسکین صورت بنائے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد’کہیں کی اینٹ،کہیں کا روڑا‘والی ضرب المثل کو پیغام بھیج کے بلایا تو اسی سوال پہ اس بے چاری کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔’ساجھے کی ہنڈیا‘ والی کہاوت نے تو اپنے الفاظ کے معانی بتانے کی بجائے وقت سے پہلے چوراہے پہ پھوٹنے کی یقین دہانی کرا دی۔ایک حالیہ امتحان میں ’بھان متی کا کنبہ‘ والا محاورہ استعمال کرتے ہوئے ننانوے فیصد ’بالغ بچوں‘ نے تان پی ڈی ایف والے اتحاد پہ توڑی ہے۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ جب سے عمران خاں کی منھ زور مقبولیت کا طلسم توڑنے کے لیے مختلف محکموں(داخلہ، خزانہ،پولیس،الیکشن کمشن، معروف صحافی، وغیرہ وغیرہ) کو متحرک کیا گیا ہے، مجھے ’پانچ چوہے گھر سے نکلے‘ والی نظم شدت سے یاد آتی ہے۔ فرماتے ہیںکہ اربوں کی کرپشن والے جب گھڑی، گوگی، فارن فنڈنگ کا حساب مانگتے ہیں تو مجھے بچپن کے روزمرہ میں استعمال ہونے والی کہاوت یاد آ جاتی ہے: ’پائی آلی سنگے، پڑوپی آلی منگے ‘ ان کے بقول راجا ریاض جیسے ’معتدل‘ سیاست دان کو تئیس کروڑ والی اِس اسلامی مملکت میں اپوزیشن لیڈر بنانے جیسا گھناؤنا مذاق تو شاید ہی تاریخ کی آنکھ نے دیکھا ہو۔ آئے روز کے سروے اور غیر جانب دارانہ تجزیے بتا رہے ہیں کہ جیسے جیسے ظلم اور گرفتاریوں کی آنچ تیز کی جارہی ہے، عمران خاں کی مقبولیت کا سورج سوا نیزے پہ اور کئی مؤقر اداروں کا چاند، گرہن آلود ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو مختلف ایجنسیاں بھی بتا رہی ہیں کہ 2008، 2013، 2018 والے الیکشنوںکے اصل نتائج عمران کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے کے تھے لیکن انھیں کہیں اقتدار سے محروم رکھا گیا اور کبھی مکمل با اختیار بنانے سے گریز کیا گیا۔ لالہ بسمل اور مرزا مُفتہ تو موجودہ حکومت کی ’کارکردگی‘ (کار سرکاری، کردگی غیر سرکاری) دیکھ دیکھ کے یہاں تک بھرے بیٹھے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ اب وہ لمحہ آیا ہی چاہتا ہے جب کوئی غیرت مند طاقت عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کر کے مدعا دوسروں پہ ڈالنے والی پی ڈی ایم کو پی ڈی ایف میں بند کر کے طاقِ نسیاں و عصیاں میں رکھ دے گی!!! پی ڈی ایم کا تازہ ترین بیانیہ مسلم لیگ نون کی متحرک ترین عہدے دار مریم نواز کی گل افشانیِ گفتار ہے۔اس میں سے جو چیز ہمیں پسند آئی ہے،وہ یہ ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ترازو کے پلڑے برابر کیے جائیں۔ ہمارے خیال میں تو اس برابری کے اثرات تو عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ اسی چیز کو خوشحال ممالک میں عدل، انصاف، قانون اور سماجی اخلاقیات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی دعویٰ دنیا بھر کی مقبول سیاسی پارٹیوں بلکہ تاریخ کی چھاتی پہ دھرے بڑے بڑے مذاہب کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے۔ عوام چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایجنڈا محض عمران کو سزا دلوا کے اقتدار بدر کرنے سے پورا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ضروری ہے کہ: ٭ مریم، بلاول، اسعد الرحمن، عابد شیر علی اور ایمل ولی وغیرہ کو اپنی اپنی مبلغ تعلیم اور ذہانت کے بل بوتے پر دیگر پاکستانیوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہو کے وطنِ عزیز کے کسی محکمے میں نوکری تلاش کرنی چاہیے۔ ٭ عمران نے سیاست کو وراثت کی جھولی میں نہیں ڈالا، اس لیے دیگر سیاست دان بھی موروثی مرض کا شافی علاج دریافت کریں۔ ٭ اگر اربوں کی لُوٹ مار اور بڑے بڑے مکروہ گناہ بہ جنبشِ یک قلم معاف کرائے جا سکتے ہیں تو پاکستان کی تمام جیلوں سے چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کو پہلی فرصت میں رہا کر دینا چاہیے۔اس طرح قومی خزانے سے قیدیوں، جیلروں اور پولیس پہ خرچ ہونے والے اربوں روپے بچ سکتے ہیں۔ ٭ آج کل توشہ خانے کا بہت چرچا ہے تو کیوں نہ عدالت کو اختیار دیا جائے کہ وہ کم از کم گزشتہ پچاس سال سے لیے گئے تحائف کا ریکارڈ مرتب کر کے ہر مستفید رکن کو حکم جاری کرے کہ وہ جملہ تحائف کی موجودہ قیمت کے مطابق فوری طور پر رقم قومی خزانے میں جمع کرائے۔