پی ٹی آئی کے ورکرز کو شکوہ ہے کہ خان صاحب کے معاملے میں ہم کوئی رعایت نہیں دیتے۔ حالانکہ بات فقط اتنی سی ہے کہ خان صاحب رعایت لینے کی گنجائش نہیں دیتے۔ ان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی کہی گئی کسی بھی بات پر قائم نہیں رہتے۔ ان کی اسی کمزوری کے سبب ان کے مخالفین نے ان کا نام ’’یوٹرن خان‘‘ بھی رکھدیا ہے جو اس لحاظ سے بہت بڑا گناہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قران مجید میں واضح حکم کے ذریعے کسی کا نام بگاڑنے یا الٹا سیدھا نام رکھنے سے منع فرما رکھا ہے۔ خان صاحب کوئی بھی دعویٰ کردیں یا کوئی بھی وعدہ فرما لیں، کوئی بھی شخص گارنٹی نہیں دے سکتا کہ وہ اس دعوے اور وعدے سے پھریں گے نہیں۔ سو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ خوش فہمی ہے لوگوں کو کہ خان صاحب کبھی نواز شریف، آصف زرداری یا مولانا فضل الرحمن سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ نواز شریف کے ساتھ جب وہ عدلیہ بحالی تحریک میں شریک تھے تب بھی لندن کے فلیٹ موجود تھے۔ تب خان صاحب کا ہدف پیپلزپارٹی کی حکومت تھی سو خان صاحب نواز شریف کے اتحادی رہے۔ نون لیگ کی حکومت میں نواز شریف ہی ہدف ہوسکتے تھے سو ابھی چند ماہ قبل سینیٹ الیکشن میں نون لیگ کے خلاف وہ پیپلزپارٹی کے اتحادی ہوگئے۔خان صاحب کے اس مینڈیٹ کا حال بھی اتنا پتلا ہے کہ خان صاحب کو اسی چوہدری پرویز الہی سے معانقے کی ضرورت پیش آگئی ہے جسے اپنی ’’لسان الصدق‘‘ سے سب سے بڑا ڈاکو قرار دے چکے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ یہ ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ خان صاحب کے نئے پاکستان میں پنجاب اسمبلی کا سپیکر ہوگا۔ دوسری طرف الطاف حسین کی وہ باقیات بھی انہوں نے ہمرکاب فرما لی ہیں جن سے متعلق ان کے ماضی کے دعوے بھولنے کی چیز ہوں تو ہم یاد دلائیں۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ خان صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ کراچی کے لوگوں نے ہمیں ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر مینڈیٹ دیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ووٹر نے ایم کیو ایم کو مسترد کرکے خان صاحب کو چن لیا۔ اگر ایسا ہے تو اسی ایم کیو ایم سے اقتدار کے لئے ہاتھ ملانا کراچی کے ووٹر کی توہین نہیں ؟ جس ایم کیو ایم کو ووٹر نے مسترد کردیا اس ایم کیو ایم کو عمران خان کیوں مسترد نہ کر سکے ؟ اقتدار کے لئے ہی نا ؟ سو جو عمران خان اقتدار کے لئے ’’سب سے بڑے ڈاکو‘‘ اور ایم کیو ایم جیسی جماعت سے ہاتھ ملا سکتا ہے وہ وقت آنے پر نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے بھی سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ کسر بس اتنی سی ہے کہ ابھی وہ اس کوشش میں ہیں کہ ان کے بغیر حصول اقتدار کی آپشن آزما لی جائے۔پیپلزپارٹی یا ایم ایم اے سے خان صاحب فی الحال اس لئے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ’’بگ پلیئرز‘‘ ہیں۔ چھوٹے موٹے حصوں پر قناعت نہیں کرتے۔ جب بھی مانگتے ہیں بڑا پیس مانگتے ہیں اور خان صاحب کے بارے میں تو مشہور ہے کہ بڑا پیس کجا وہ تو اپنے ملاقاتی کو چائے کا کپ بھی پیش کرنے کے روادار نہیں۔ سادگی اور کم خرچے کا طوق تو خود ہی انہوں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔ سو ان کی پہلی ترجیح چھوٹی کابینہ ہوسکتی ہے اور چھوٹی کابینہ میں پیپلزپارٹی یا ایم ایم اے کو بڑا حصہ دیدیا تو بچا کیا ؟ لیکن اگر اقتدار کی کھیر ان کے بغیر بنتی نظر نہ آئی تو پھر مقبولیت میں پھجے کے پائے اور سٹودنٹ کی بریانی کو دوسرے اور تیسرے نمبر پر دھکیل کر پہلی پوزیشن پر ان کے یوٹرن کا قبضہ کس کام آئے گا ؟ وہ بلاول سے ہاتھ ملا کر یہ کہتے ہوئے اپنے ووٹرز کو ماموں بنانے کی پوری پوری اہلیت رکھتے ہیں کہ میں نے زرداری سے نہیں بلاول سے ہاتھ ملایا ہے اور جو بلاول سے ہاتھ ملا سکتا ہے وہ مولانا فضل الرحمن کے بیٹے اسد محمود کو جھپی بھی ڈال سکتا ہے۔ اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں کہ خان صاحب نے تقریر اپنے مینڈیٹ اور طاقت سے زیادہ بڑی کردی ہے۔ پچھلی پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر محمود الرشید کو ابھی سے احساس ہوچلا ہے کہ آنے والا وقت کٹھن ہوگا۔ موصوف نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہماری حکومت نہ چلنے دی گئی تو ہم وسط مدتی انتخابات بھی کراسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وسط مدتی انتخابات جیس دلیری صرف وہ لیڈر دکھا سکتا ہے جس کے ہاتھ میں کچھ ہو۔ محدود مینڈیٹ کی مجبوریوں سے نکلنے کے لئے وہ وسط مدتی انتخاب کا ڈول ڈال کر بھاری مینڈیٹ مانگتا ہے تو ووٹر اس پر غور ضرور کرتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی میں دم نہیں اور کیا اگلی بار ووٹر انہیں پولنگ سٹیشن پر قبول بھی کرے گا ؟ وسط مدتی انتخابات کوئی لولی پوپ نہیں کہ اٹھایا اور چوس لیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں ایک لطیفہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ خود کش بمباروں میں کمانڈر اتنا بارود بھر دیتے ہیں کہ وہ جنت سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ انتخابات کا بھی رہا۔ ایک ایسا افغان باشندہ بھی بلوچستان اسمبلی کا رکن منتخب ہوگیا جس کا ووٹ تو کجا سرے سے شناختی کارڈ بھی نہیں جبکہ دوسری طرف کراچی میں اب تک جگہ جگہ سے ایسے مہر لگے شفاف ووٹ برآمد ہورہے ہیں جنہیں شاید دم گھٹنے کے سبب بیلٹ بکس تک رسائی نصیب نہ ہوسکی۔ اس پس منظر کے ہوتے وسط مدتی انتخابات نون لیگ کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ ہوں گے۔ خان صاحب کے پاس بچنے کی واحد آپشن یہی ہے کہ پیپلز پارٹی یا ایم ایم اے میں سے کوئی ایک جماعت ان کی اتحادی ہو۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی نظریں بلاول کے لئے 2023ء کے الیکشن پر ہیں۔ اس الیکشن میں کامیابی کے لئے اس کا موجودہ اقتدار سے باہر رہنا ضروری ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت خان صاحب سے ہاتھ ملاتی بھی ہے تو ایسا محدود مدت کے لئے کرے گی۔ اگلے الیکشن میں وہ ہر حال میں اپویشن جماعت کی حیثیت سے جانا چاہے گی۔ فقط ایم ایم اے ہی ہے جو پانچ سال ساتھ دے سکتی ہے سو آگے کی سیاست میں دیکھنے والی چیز اب یہ ہوگی کہ خان صاحب اپنے درجن بھر اتحادیوں اور دو چار درجن آزاد کے ہاتھوں آئے روز بلیک میل ہونے والی لرزتی کانپتی حکومت قبول کرتے ہیں یا حضرت مولانا فضل الرحمن دام اقبالہ کے حوالے سے ایک بڑا یوٹرن لے کر اپنے کھلاڑیوں کا تراہ کڈھتے ہیں !