24 مئی محسن پاکستان نواب آف بہاولپور صادق محمد خان عباسی کا یوم وفات ہے، بہاولپور کی مقامی انتظامیہ کی طرف سے عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ، ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے عظیم خدمات ہیں، جن کا ذکر انہی سطور میں کئی بار کر چکا ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سطح پر برسی کے موقع پر نواب آف بہاولپور کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ نواب صادق محمد خان عباسی کے عہد میں ریاست بہاولپور ایک خوشحال ریاست تھی ، خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت برطانیہ کا پائونڈ اور ریاست بہاولپور کی کرنسی برابر تھی، لوگ خوشحال تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے نواب آف بہاولپور کی تحریک پاکستان سے محبت اس قدر تھی کہ قیام پاکستان سے ایک سال پہلے ریاست بہاولپور کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری ہوا، جس پر ایک طرف قائد اعظم کی تصویر اور پاکستان کا جھنڈا موجود تھا اور دوسری طرف نواب آف بہاولپور کی تصویر اور ریاست بہاولپور کا جھنڈا تھا۔ پاکستان قائم ہوا تو سعودی عرب سمیت کسی ملک نے پاکستانی کرنسی کے اجراء کی ضمانت نہ دی، نواب آف بہاولپور نے پاکستان کرنسی کی ضمانت دی ، تقسیم کے بعد زر مبادلہ کے سارے ذخائر ہندوستان کے پاس تھے کہا گیا کہ نواب آف بہاولپور نے کرنسی کی ضمانت دے دی۔ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں خان لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان کی تحریک پر بل منظور کیا گیا کہ ریاست بہاولپور کو یہ حق دیا جائے کہ دستور ساز اسمبلی کیلئے ایک نمائندہ مقرر کر دے،اس بل کی منظوری کے بعد بہاولپور سے ریٹائرڈ چیف جج مولوی فضل حسین کے نام کی سفارش کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بہاولپور کا وہ سٹیٹس کہاں گیا ؟ ذوالفقار علی بھٹو نے بہاولپور کیلئے ملازمتوں کا 12 فیصد کوٹہ مقرر کیا تھا مگر 12 فیصد تو کیا 0.12 فیصد بھی بہاولپور کے مقامی لوگوں کو نہیں ملا جبکہ نواب صاحب کے دور میں ریاست بہاولپور کی ملازمت توقیر اور عزت کا باعث سمجھی جاتی تھی، اس کا ایک حوالہ یہ ہے کہ ریاست بہاولپور کو لیگل ایڈوائزر کی ضرورت پڑی تو اخبار میں اشتہار دیا گیا تو ملازمت کیلئے دیگر سینکڑوں درخواستوں کے ساتھ ساتھ محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی درخواستیں بھی شامل تھیں مگر قیام پاکستان کے بعد بہاولپور کے لوگ ملازمتوں سے بھی محروم ہو گئے۔ نواب صاحب کے دور میں بہاولپور رجمنٹ تھی ، لوگ افواج کا حصہ بنتے تھے اور یہ بھی تھا کہ بہاولپور کے فوجی افسران کو ٹریننگ کے لئے برطانیہ و دیگر ممالک میں بھیجا جاتا تھاجبکہ قیام پاکستان کے بعد بہاولپور رجمنٹ پاکستان کا حصہ بنی تو اس کا نام ہی ختم ہو گیا، ون یونٹ بنا تو سابق ریاست بہاولپور بھی ون یونٹ کا حصہ بن گئی ۔ 1969ء میں یحییٰ خان نے ون یونٹ ختم کیا تو بہاولپور کو پنجاب میں ضم کر دیا گیا، جس کے خلاف زبردست تحریک چلی اور 1970ء کے الیکشن میں بہاولپور کے لوگوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شکست دے دی اور بہاولپور صوبہ محاذ کے امیدوار کامیاب ہوئے مگر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا گیا اور مغربی پاکستان میں بہاولپور کا مینڈیٹ تسلیم نہ ہوا،جس کے خلاف سابق ریاست میں شدید احتجاج ہوا، مظاہرین پر فائرنگ کی گئی درجنوں لوگ شہید و زخمی ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر لئے گئے، اس پر لوگوں نے کہا کہ کیا ریاست بہاولپور کی خدمات کا یہی صلہ دیا گیا ہے؟۔ بہاولپور کے حوالے سے میری کتاب بھی شائع ہوئی ہے مگر ایک اور کتاب ’’بہاولپور۔ خوشحال ریاست سے پسماندہ ڈویژن تک ‘‘کے نام سے معروف رائٹر مجاہد حسین نے لکھی ہے ،مجاہد حسین کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ پنجابی بولنے والے ہیں مگر انہوں نے اپنی کتاب میں بہاولپور کے ساتھ ہونے والی حق تلفیوں کا ذکر تفصیل سے کیا ہے، یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بھٹو صاحب برسراقتدار آئے تو انہوں نے بہاولپور کے لئے ملازمتوں کا 12 فیصد کوٹہ مقرر کیامگر اس پر عملدرآمد کی نوبت نہ آئی۔ نواب بہاولپور کی برسی کے موقع پر یہ بتانا چاہتاہوں کہ نواب صاحب علم دوست انسان تھے ، جامعہ عباسیہ ان کی یادگار ہے ، 1925ء میں الازہر یونیورسٹی مصر کی طرز پر جامعہ عباسیہ کا قیام عمل میں لایا گیا، 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے باقاعدہ یونیورسٹی بنا دیا اور اب اس کا نام اسلامیہ یونیورسٹی ہے اور اس کا شمار پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے اس وقت طلباء کی تعداد پچھتر ہزار ہے۔ اسی طرح سنٹرل لائبریری بہاولپور نواب صاحب کی بہترین یادگار ہے، لائبریری کا قیام 1924ء میں نواب صاحب کی تاج پوشی کے موقع پر عمل میں آیا اور یہ اُس وقت رقبے کے اعتبار سے برصغیر جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ کچھ ادارے نواب صادق محمد خان کے دور سے پہلے قائم ہوئے جیسا کہ بہاول وکٹوریہ ہسپتال 1906ء میں قائم ہوا مگر اسے حقیقی ترقی نواب سر صادق محمد عباسی نے دی اور یہ اپنے وقت میں ہندوستان کا سب سے بڑا ہسپتال ہوا کرتا تھا، صادق ایجرٹن کالج بہاولپور 1868ء میں قائم ہوا مگر اسے بھی وسعت اور ترقی نواب صاحب کے دور میں ملی۔ جامعہ مسجد الاصادق، بہاولپور کا سٹیڈیم، چڑیا گھر اور بہاولپور کا صادق پبلک سکول اپنے دور کے اس قدر بڑے ادارے تھے کہ پورے ہندوستان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا،آج بہاولپور کے حالات دیکھتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے ۔ نواب بہاولپور کی خدمات صرف بہاولپور تک محدود نہ تھیں بلکہ ریاست بہاولپور کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق نواب بہاولپور پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک،کنگ ایڈورڈ کالج کی نصف بلڈنگ اور لاہور ایچی سن کالج کے بہت سے کمرے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعمیر کرائے۔ ریاست بہاولپور کی طرف سے تعلیمی مقاصد کیلئے لاہور کو سالانہ جو گرانٹ جاری ہوتی رہی اس کی تفصیل کے مطابق کنگ ایڈروڈ کالج ڈیڑھ لاکھ ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ،انجمن حمایت اسلام پچھتر ہزار،ایچی سن کالج دوہزاراور پنجاب یونیورسٹی لاہور بارہ ہزار اس کے ساتھ ساتھ لاہور کے ہسپتالوںاور دوسرے رفاہی اداروں کی ریاست بہاولپور کی طرف سے لاکھوں کی مدد کی جاتی رہی ہے ۔