دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ اور اس کی جگہ لینے کے لیے کوشاں چین کے درمیان تعلقات مستقبل میں جغرافیائی سیاسیات کا سب سے اہم مسئلہ رہے گا جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ چین نے نہایت وسیع معیشت کے سہارے بیرونی دنیا تک پھیلے عسکری پنجے، بنیادی ڈھانچے میں ’بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام‘ کے ذریعے اپنے تسلط کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اور عالمی اداروں میں اہم عہدوں پر رسائی تک بہت تیزی سے بین الاقوامی ترقی کی ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مغرب اور باقی دنیا میں اپنے اتحادیوں سے خود کو فخریہ انداز میں الگ تھلگ کرتے ہوئے مسلسل کثیر الجہتی تجارت کے نظریے کو مسترد کر رہے تھے۔ کرونا وائرس کے دنیا کو وجودی خطرے سے دوچار کرتے اثرات ایک طرح سے چین کے حق میں بہتر ثابت ہوئے۔ دوسرے بڑے ممالک کی نسبت چین کی معیشت زبردست طریقے سے سنبھل رہی ہے۔ شی جن پنگ کی حکومت نے طبی اور فوری ضرورت کے سامان کی فراہمی کے ذریعے خود کو عالمی قیادت کے روپ میں پیش کیا ہے۔ اہم سوال یہ کہ کیا امریکی الیکشن کے بعد اتحادی ملک چین کے خلاف مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں گے؟ نئے صدر کا بیجنگ کے ساتھ رویہ زیادہ جارحانہ ہو گایا مفاہمت پسند انہ؟ ایک معروف نقطہ نظر یہ بھی گردش میں رہا ہے کہ چین کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے دونوں پارٹیوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر کچھ عرصے کے لیے سینیئر سیاستدانوں کو سامنے لایا گیا۔ اس کی ایک مثال لنزی گریم تھے جنہوں نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقعے پر یورپ اور برطانیہ کو چین کی کمپنی ہواوے کو اپنے ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک میں شامل نہ کرنے کی دھمکی دی۔رپبلکن پارٹی کے مرکزی موقف کی تائید کرتے ہوئے ٹرمپ کے حامی سینیٹر گریم کہتے ہیں، ’نینسی پیلوسی اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک ساتھ کھانے پہ شاید ہی نظر آئیں لیکن اگر آپ برطانیہ کی ہواوے کی خریداری کے متعلق سوال کریں تو دونوں کا جواب ایک ہی ہو گا۔ ہم رپبلکنز اور ڈیموکریٹک اپنی اس بات پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ اگر آپ ہواوے کو اپناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ما رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک سپیکر نینسی پیلوسی کانفرنس میں یہاں تک کہتی ہیں کہ برطانوی یا یورپی نیٹ ورکس میں ہواوے کی شمولیت کا مطلب ہو گا آپ ’جمہوریت پر آمریت‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی سے کمپنی کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’باہمی رابطے کا یہ 5 جی ٹیٹ ورک ایسی حکومت کے زیر تسلط ہونا جو ہماری اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی، دراصل جارحیت کی خطرناک ترین شکل ہے۔ امریکی سفارت کاروں اور عسکری کمانڈروں نے بھی بیجنگ کے خلاف انڈیا کو اتحاد کا حصہ بنانے کے لیے بش اور اوباما کے دور سے چلی آنے والی پالیسیاں جاری رکھیں اور اس حد تک آگے بڑھے کہ فوج کی پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کر کے انڈو پیسفک کمانڈ کر دیا۔ تاہم چین کے ساتھ موجودہ خراب تعلقات کے باوجود نریندر مودی حکومت کی واضح ہچکچاہٹ کی وجہ سے چین کے خلاف سخت گیر موقف مشکل کام ثابت ہوا۔ تاہم امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا پر مشتمل چار رکنی گروپ کے درمیان ٹوکیو میں بیجنگ کے خلاف تازہ ترین مذاکرات کافی ہنگامہ خیز رہے۔ جن میں چین کے جنوبی سمندروں کے 80 فیصد حصے پر یک طرفہ دعوے اور ان میں جہاز رانی کی آزادی سے لے کر مبینہ سائبر حملوں سمیت چین کی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کے خلاف مضبوط موقف اپنایا گیا۔حال ہی میں امریکی بحریہ نے متنازع سمندری علاقے میں دو مال بردار بحری بیڑے روانہ کیے اور دوسرے ملک بھی ممکنہ طور پر ان کی پیری کرنے والے ہیں جیسے برطانیہ جو جہاز بردار بحری بیڑا ’ملکہ الزبتھ ٹو‘ اگلے سال مشرق کی طرف روانہ کرے گا۔بعض مشرقی ایشیائی ملکوں کی حکومتوں کا موقف ہے کہ اوباما انتظامیہ، جس کے دوران بائیڈن نائب صدر تھے، وہ چین کی توسیع پسندی پر نظر رکھنے کے معاملے میں کوتاہ بین واقع ہوئے جس کی وجہ سے چین کو بحر الکاہل اور بحرِ ہند میں جگہ جگہ پاؤں جمانے کا موقع مل گیا۔ جب سمندری تنازعے پر پڑوسی ممالک بیجنگ سے برسر پیکار تھے تو امریکہ کی طرف سے ناکافی معاونت بھی محسوس کی گئی۔ تاہم پانچ سال قبل اوباما نے سفارت کاری، دفاع اور تجارت کے معاملات میں بحرِ اکاہل کی جانب مجموعی جھکاؤ کی طرف اشارہ ضرور دیا تھا، لیکن شام کی جنگ میں روس کی مداخلت اور داعش کی اٹھان نے امریکہ کو واپس مشرقِ وسطیٰ میں لا کھڑا کیا۔ ایشیا کی مشرقی ریاستوں میں عہدے داروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بیجنگ کے اقدامات پر سوالات اٹھانے کے بجائے امریکہ چین کے ساتھ تجارت میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ اوباما کا چین میں دورہ طے کروانے والی سلامتی کی مشیر سوزن رائس دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی کھلے عام حامی تھیںرائس کو بائیڈن انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ محض چین اور امریکہ کو مسائل سے نکلنے اور استحکام پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دے رہی تھیں۔امریکہ کی اگلی انتظامیہ کو چینی حکومت اور انسانی حقوق کے مسئلہ پر توجہ دینا ہو گی۔ بائیڈن نے کہا ہے کہ اس کے زیر صدارت امریکہ دوبارہ صحت کی عالمی تنظیم میں شامل ہو جائے گا جس پر بالخصوص اس کے ایتھوپیائی ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز گیبریئسس پر کسی حد تک درست الزام لگاتے ہوئے ٹرمپ نے کورونا وائرس کے مسئلے پر شی اور اس کی حکومت کی جانب غلامانہ طریقے سے جھکنے کی بنیاد پر عالمی ادارہ صحت سے ہاتھ کھینچ لیے تھے۔بائیڈن نے یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کا صدر ٹرمپ کی طرف سے روکے گئے عالمی ادارہ صحت کے فنڈز دوبارہ جاری کریگا اور ایک مشترکہ ٹیم بنانے کی تجویز پیش کریگا جو کورونا وائرس کی ویکسین اور نئے علاج پر تحقیق کریگی۔پھر چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ ہے جسے ٹرمپ نے جیتنے کا عزم کر رکھا تھا۔ لیکن اس جنگ میں اس کے پاس فتح کے ثبوت دکھانے کو ناکافی ہیں۔ صدر نے مجموعی طور پر تجارتی خسارہ کم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن گذشتہ اگست 14 سال میں یہ اپنی بلند ترین ماہانہ سطح کو چھوتا ہوا 67 ارب ڈالر تک پھیل گیا۔ ماہانہ سات فیصد کے زوال کے باوجود چین کا خسارہ محض 26 ارب ڈالر تھا۔ ڈیموکریٹکس کہتے ہیں وہ تجارتی جنگ کا خاتمہ کر دینگے لیکن یہ کرتے ہوئے وہ بیجنگ سے غیر ضروری رعایات نہ برتیں گے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات امریکہ نئے صدر کے دور میں بہت سی بنیادی تبدیلیوں سے گزریں گے اور حالات سے ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل بہت ترش اور ہنگامہ خیز ہو گا۔(بشکریہ دی انڈپینڈنٹ)