ایک بڑے قومی اخبار نے یہ نئی تحقیق شائع کی ہے کہ مرتے وقت انسان کے دماغ میں اس کی پوری زندگی کی فلم چند سکینڈ میں چل جاتی ہے۔اس مختصر سے دورانیے میں عمر کے ہر دور کے واقعات کی بازگشت روشن ہو جاتی ہے۔ اخبار نے اس تحقیق کو نیا قرار دیا ہے لیکن دراصل یہ کئی برس پہلے کی تحقیق ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بہت ہی پرانی‘عہد عتیق کی تحقیق ہے۔ویدوں اور دوسرے مذاہب کے صحیفوں میں اس کا اشارہ ملتا ہے۔چلئے ‘اسے چھوڑیے ۔گزشتہ صدی کے اوائل میں یہ بات ایک ناول اور فلم کے ذریعے بھی سامنے آ چکی ہے۔ ’’دیوداس‘‘ جی ہاں‘اس نام کی کتاب اور فلم سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔بنگالی ادیب شرت چندرا چیٹر جی نے اس نام سے ناول 1917ء میں لکھا تھا اور اس کے 18برس بعد اس نام سے فلم بنی جس کے ہیرو برصغیر کے مشہور ترین گلوکار کندن لال سہگل تھے۔1965ء میں اس کا ری میک بنا جس کے ہیرو دلیپ کار تھے۔فلم بینوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے یہ فلم نہ دیکھی ہو۔اس کے کئی ری میک اور بھی بنے اور آخری سپرہٹ ری میک وہ تھا جو 2002ء میں بنا اور اس میں دیوداس کا کردار شاہ رخ نے ادا کیا۔دیوداس جب اپنا سفر مایوسی و مدہوشی سے طے کر کے اپنے گائوں مانک پور لوٹتا ہے تو گر کر مر جاتا ہے‘ مرنے سے پہلے بچپن سے لے کر آخری سفر تک کے سارے واقعات تاریک تیز رفتار‘فاسٹ فارورڈ فلم کی طرح اس کے دماغ میں چلتے ہیں‘دنیا گھومتی محسوس ہوتی ہے اور اس عالم میں وہ مر جاتا ہے۔ عالمی ادب کے کتنے ہی ناولوں اور افسانوں میں اس ’’تحقیق‘‘ کو دکھایا گیا ہے‘تحقیق کے نام پر نہ سہی‘ ’’تصور‘‘ کے نام پر ہی سہی۔ ٭٭٭٭٭ زندگی کے بارے میں ایک گھسا پٹا مقولہ ہے کہ یہ اک معمّہ ہے۔اسے کم گھسا پٹا بنانے کے لئے یہ شکل دی جا سکتی ہے کہ زندگی ایسا معمہ ہے جسے نہ کوئی حل کر سکا نہ کر سکے گا۔دماغ کی یہ آخری ’’ری کال‘‘ شعوری نہیں ہوتی‘یہ ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کے مطابق جسم کا ایک ’’مکینیکل‘‘ عمل ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب آپ کسی کمپیوٹر یا روبوٹ کو توڑتے ہیں تو اس کی ’’میمری‘‘ اسی طرح گھومتی ہے اور پھر ایک تصویر پر ’’سٹک‘‘ Stuckہو جاتی ہے۔یہاں سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان بھی محض ایک مشین ہے جسے یہ ’’مغالطہ‘‘ ہے کہ وہ حسیات کا مالک ہے۔؟ ٭٭٭٭٭ جس کا تعلق بہت سی باتوں کے ساتھ ہے‘مثال کے طور پر دکھ درد کے ساتھ۔ہماری دلیل یہ ہے کہ انسان چونکہ دکھ درد محسوس کرتا ہے اس لئے وہ مشین نہیں ہے‘ذی حس مخلوق ہے۔ لیکن سائنس اس مغالطے کی ’’تردید‘‘ یوں کرتی ہے کہ حسیات مشین کو چلانے کے لئے ’’ان بلٹ پروگرامنگ‘‘ کا حصہ ہے‘یعنی اگر انسان یا کوئی بھی جاندار دکھ درد محسوس نہ کرے تو نتیجے کے طور پر ساری مشین بے کار ہو جائے گی۔ ٹانگ زخمی ہے اور درد نہیں ہو رہا ہے تو ٹانگ خراب ہو جائے گی‘آخر کار کاٹنا پڑے گی اور اسی طرح باقی سارا جسم بھی محمول کر لیجیے۔یہ جسمانی درد ہے۔ذہنی درد کی بھی یہی توجیح ہے۔ کیسے؟مامتا کا درد نہ ہو تو نسل آگے کیسے چلے گی؟نئی نسل کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ ماں باپ میں مامتا کو ’’ان بلٹ‘‘ کر دیا جائے۔ کہیے‘کیا خیال ہے؟ ٭٭٭٭٭ گویا سب ’’مشین‘‘ ہے۔تو پھر مشین سے حساب کتاب کیسا۔یہ سوال آ کر ساری ’’مشینی تھیوری‘‘ کو تلپٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ بہرحال معمّہ کسی حل کے دائرہ امکان میں نہیں ہے۔مشین کی ساخت ہی سمجھ میں نہیں آئی‘نوعیت کہاں سے سمجھ میں آئے گی اور مشین کا ’’ان بلٹ‘‘ ایسا خراب ہے کہ اس نے اپنے مرزبوم یعنی اس سارے نیلے سیارے کو دوزخ بنا دیا ہے۔نیلا سیّارہ سائنسی نام ہے۔شاعرانہ نام رکھنا ہے تو دکھیا سیارہ رکھ لیا جائے۔ ٭٭٭٭٭ سب سے خراب ان بلٹ انسان کا ہے۔جب سے کرہ ارض پر آیا ہے‘نہ خود چین سے رہ سکا ہے نہ خود سے پہلے والی ارب ہا ارب دوسری مخلوق کو چین سے رہنے دیا ہے۔شہروں میں یہ ایک دوسرے کو مارتا ہے‘جنگلوں میں گھس کر جانوروں کا قتل عام کرتا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے مطابق ہر سال دسیوں ارب جانور اس کے ہاتھوں ذبح ہو جاتے ہیں۔ جانوروں میں سے بعض کا ’’ان بلٹ‘‘ قریب قریب انسان جیسا ہے۔ یا چلیے کہہ لیجیے کہ جزوی طور پر۔مثلاً لکڑ بگھے یا بابون بندر‘شیر اور چیتے جانور مارتے ہیں تو گردن دبوچ کر آناً فاناً کام تمام کر دیتے ہیں۔لکڑ بگھے اور بابون جانور کو پکڑ کر کھانا شروع کر دیتے ہیں۔پہلے ایک ٹانگ پھر دوسری ٹانگ اور جانور ابھی زندہ ہوتا ہے۔ ان دونوں جانوروں کو ہم ’’جنگل کے انسان‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ (جاری ہے)