جنگوں سے کسی کو کیا ملا ہے لیکن اس ’’برتر اور درحقیقت‘ بدتر مشین‘‘ نے پوری تاریخ میں بس جنگیں ہی لڑی ہیں۔ہر جنگ میں لاکھوں مارے جاتے ہیں‘لاکھوں زندہ رہتے ہیں لیکن موت سے بدتر زندگی گزارنے کے لئے۔انسان جنگ لڑنے پر مجبور ہے‘اس کی جبلّت ہی ایسی بنا دی گئی ہے یعنی وہی ’’ان بلٹ‘‘ تو پھر گناہ گار ہے کون اور خون بہا کیا ہے۔خیر‘خوں بہا کا کوئی سوال کمپیوٹر اور روبوٹک لغت میں اٹھتا ہی کہاں ہے۔ کرشنا جی مہا بھارت میں ارجن کے ساتھ طویل گفتگومیں ان سوالات کا ایک ایسا جواب دیتے ہیں جس کے اندر پھر کئی سوالات ہیں۔وہ فرماتے ہیں کوئی مرتا ہے نہ کوئی مارتا ہے۔ یعنی سب کہانی ’’ایک‘‘ کی ہے وہی ’’ایک‘‘ جو بس ایک ہی ہے۔ ’’ان بلٹ‘‘ دماغ کو ایسا دماغ ہی کہاں؟ بھجارتوں کو بوجھ سکے۔بہرحال جو کیا ہے اور جو کر رہا ہے اور جو کسی اور نے کروایا ہے‘سب کا خلاصہ مرتے وقت دماغ میں چلتا ضرور ہے اور یہ رنگا رنگ کی مشینیں؟۔گھڑنے والا گھڑے کھلونے‘ کوئی رنگیلے کوئی سلونے‘جوتا من بھائے۔! ٭٭٭٭٭ خیر‘قصّہ یہ تھا کہ دم آخر فلم کیا چلتی ہے۔یعنی زندگی کی شب آخر کو آخر شب کا آخری خواب کیسا ہوتا ہے؟۔اس کے اجزا کیا ہوتے ہیں؟یادوں کی تصویریں ریل کے علاوہ بہت سی حسرتوں کے مرقعے۔بہت سے دکھ‘آدمی کمزور تھا تو بہت سی مظلومیاں۔اور بہت سے وہ ظلم جو وہ کرنا چاہتا تھا لیکن کرنے کی طاقت نہیں تھی اور اگر طاقتور تھا تو مظالم کی ایک لمبی فہرست اور ہر ظلم کے بعد ملنے والا بے پایاں سکون‘مزید ظلم کی تمنا۔آدمی کا سب سے بڑا سرمایہ یہی ظلم ہی تو ہوتا ہے کہ فطرتی ’’ان بلٹ‘‘ ظلم پراستوار ہے۔ جو شخص ظالم نہیں ہوتا تو اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اس کے پاس ظلم کا موقع تھا نہ طاقت۔ ٭٭٭٭٭ ماضی کا دور اور تھا‘اب کا اور۔پہلے ان گنت قصّے زبانوں پر آ کر تحلیل ہو جاتے تھے‘بہت سے ان سنے رہ جاتے تھے۔اب الیکٹرانک جاسوسی اور ڈیجیٹل عکاّسی کا دور ہے۔اتنے بے شمار واقعات ریکارڈ ہو جاتے ہیں کہ دیکھو تو انسان کا نام گالی لگنے لگتا ہے۔ ہر وہ شخص مظلوم ہے جو کسی کے بس میں آ جائے اور سب سے زیادہ مظلوم بچے ہیں اور عورتیں ہیں۔مغربی معاشروں کی عورت بھی مظلوم ہے لیکن قدرے کم‘برصغیر کی عورتوں کے حصے میں یہ ظلم وافر مقدار میں آیا ہے۔بیٹی ہے تو‘بہو ہے تو‘ بیوی ہے تو اور بیوہ ہے تو اور ماں ہے تو بھی۔ بہت عرصہ پہلے ایک ناول مشہور شائع ہوا تھا اور پڑھنے والوں کو رلا کر رکھ دیا تھا۔اب تو اکثر کے علم میں بھی نہیں ہوگا کہ ’’اے عورت تیرا نام کمزوری ہے‘‘ کے نام سے لکھا گیا ناول کس طرح گھر گھر میں پڑھا گیا تھا اور پڑھنے والوں سے پڑھا نہیں گیا تھا۔اس کا ’’زہر‘‘ زائل کرنے کے لئے مصنف نے دوسرا ناول لکھا‘ اے عورت تیرا نام شہ زوری ہے۔لیکن یہ ناول دراصل دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کی تصویر تھا۔ ٭٭٭٭٭ کل ایک شامی بچے کی وڈیو دیکھی۔ گھاس کھا رہاتھا۔ روس کی مسلسل بمباری نے گھر مسمار کر دیئے اور کھیت کھلیان بھی اجاڑ دیئے۔ کھانے کو بس گھاس رہ گئی۔ جنگلوں اور بمباریوں سے کتنے بچے مرتے ہیں اور کتنے زندہ رہ کر برباد ہو جاتے ہیں کبھی کسی نے اس پر کتاب نہیں لکھی۔ معمول کے معاشرے میں خوش و خرم بچوں کے علاوہ بھی بہت سے بچے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں میں بیگار کاٹتے بچے‘ ورکشاپوں اور چائے خانوں میں کام کرتے جھڑکیاں اور مار کھاتے بچے‘ سڑکوں گلیوں سے کچرا چنتے اور ریسٹورنٹ کے شیشوں تلے اندر جھانکتے بچے‘ چھ ہزار مہینے کی تنخواہ پر گھریلو ملازم بن کر قید بامشقت کاٹتے بچے کبھی کبھی اچانک ’’سزائے موت‘‘ جن کی کہانی ختم کر دیتی ہے۔ سوتیلے ماں باپ کا ظلم سہتے بچے‘ ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے بچے اور شادی ہالوں‘ شامیانوں کے باہر اچانک جمع ہونے والے بچے‘ زندگی کی ہر سہولت‘ ہر خوشی سے محروم‘ حسرتوں کے جال میں جکڑے بے بس بچے‘ جوانی آنے سے پہلے ہی مر جانے والے بچے‘ اے بچے‘ تیرا نام بھی کمزوری ہے۔ ٭٭٭٭٭ کرہ ارض کو ظلم نے اور دکھ درد نے چاروں طرف سے گہرے سائے کی طرح گھیر رکھا ہے۔جنگوں اور تباہ کاریوں سے لاکھوں کروڑوں لوگ مر جاتے ہیں اور زندہ درگور ہو جاتے ہیں اور اتنے ہی انفرادی ستم کاریوں سے۔یہ گنتی کبھی رکی نہیں‘آبادی کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔انسان اپنے ڈی این اے کو بدلنے پر قادر نہیں۔لالچ اور غیض و غضب‘انتقام اور بالادستی کی خواہش اسے غلام بناتی ہے اور اس کا ’’ان بلٹ‘‘ جہل اسے پل بھر یہ سوچنے ہی نہیں دیتا کہ زندگی بہت مختصر ہے‘اس سب کا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتی جو وہ کر رہا ہے اور کرنا چاہتا ہے ہے مگر فرصت کردار نفس یا دو نفس عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز شب ہائے دراز کی سیاہیوں میں اترنے سے قبل‘دماغ میں چلنے والی یہ مختصر ترین دورانیے کی آخری فلم دراصل نگاہ واپسیں ہے۔جہل اور ظلم کا ’’ان بلٹ‘‘ اب فنا ہونے والا ہے۔یہ طائرانہ نظر ہے جس کے بعد طائر روح پرواز کر کے پاتال میں اتر جائے گا۔ یہ ’’ان بلٹ‘‘ ایسا کیوں ہے؟عوض یک دونفس قبر کی شب ہائے دراز‘کئی ملین برسوں سے بھی زیادہ لمبی‘کیوں ہے۔ظلم اور جہل کا توازن عدل اور خردسے کیوں نہیں ہے۔ ارجن کو کرشن نے بتایا ہی نہیں۔ (ختم شد)