دوستو! تحریر کے عنوان سے یہ مت سمجھیے گا کہ آج مَیں آپ کو علی بابا کے چالیس چوروں کی وارداتوں کے قصے سناؤں گا۔ نہ اس وقت فرعون و نمرود و شداد میری تحریر کا موضوع ہیں۔ قومِ عاد، ثمود اور مدین والوں کا قصہ بھی نہیں چھیڑوں گا۔ جناب نوحؑ اور لوطؑ کی اُمتوں کا کھاتہ بھی پرانا ہو چکا۔آج آپ مکہ کے کفار، مدینہ کے منافقین اور کربلا کے قاتلوں کو بھی ایک طرف رہنے دیجیے۔ ہم نے بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ لیا۔ ویسے تو اپنے سیاست دانوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے مکروہ افعال و عزائم سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا جائے تو ہمیں یقین ہے، بغداد کے چور، بنارس کے ٹھگ، بنگال کے جادوگر، اُردو داستانوں، پنجابی فلموںکے سارے منفی کردار، حتیٰ کہ خود حضرت ابلیس تک ناک پہ رومال رکھ کے تو بہ توبہ کہتے ویرانوں کی طرف نکل جائیں لیکن معذرت کے ساتھ آج ہمیں ان مذموم فنکاروں سے بھی کچھ تعرض نہیں۔ دوستو! حکمرانوں کو برا کہنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کہ قانونِ فطرت کے مطابق وہ تو عوام کے اعمال و کردار کے نتیجے میں مسلط کیے جاتے ہیں۔اپنے گریبانوں میں جھانکنا اہم ہے کہ آخر ہم سے کون سی ایسی بھول ہوئی ہے، جس کے ایسے خوف ناک نتائج ہماری پیشانیوں پہ کندہ کر دیے گئے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں: برے کو نہ مارو برے کی ماں کو مارو۔ آج بین الاقوامی تناظر میں ہمارا شمار مالی، اخلاقی، کاروباری نیز عدل و انصاف کے حوالے سے دنیا کی بگڑی ہوئی، پِچھڑی ہوئی، دُھتکاری ہوئی، بھٹکی ہوئی، ارذل اور اسفل قوموں میں ہوتا ہے۔ ہم جس دین کو ماننے کے دعوے دار ہیں، وہ بلا شک و شبہ اکمل و کامل ہے، قیامت تک غالب رہنے کے لیے آیا ہے ۔ جس کتاب کی صورت آیا ہے،اس کی حفاظت کا ذمہ خود خوائے بزرگ و برتر نے اٹھایا ہے۔جس پیغمبر ؐکے ذریعے آیا ہے، وہ رحمت اللعالمین ہیں، صادق اور امین ہیں، پیغمبروں میں افضل ترین ہیں۔ ایسے میں صورتِ حال بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی خامی، کمی، خرابی، کجی ، ٹیڑھ ہے، تو ہم میں ہے۔ دوستو!آج ہمیں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہم نے جتنا بھی تأمل کیا، اسی نتیجے پر پہنچے کہ ہم بحیثیتِ قوم اور بحیثیتِ فرد نہایت بُرے لوگ ہیں۔ دینی و دنیاوی حوالوں سے بھٹکے ہوئے، ضد پہ اٹکے ہوئے، فرسودہ اناؤں اور زمینی خداؤں میں لٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ دین کو دیکھیے تو ہمارے نوے فیصد معاملات قرآن و حدیث سے متصادم ہیں۔ عبادات میں ہم فرمانِ ربی اور سنتِ نبویؐ کی بجائے پختہ عادات اور باپ دادا سے ورثے میں ملی ازکارِ رفتہ رسوم و رواج کے غلام ہیں۔ صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہتے رہتے ہندی کلچر ہمارے دین کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکا ہے، بقول اقبال: تو اے مولائے یثربؐ آپ میری چارہ سازی کر میری دانش ہے افرنگی ، میرا ایماں ہے زنّاری دینِ اسلام میں توحید اور حقوق العباد ہی دو پہلو ایسے ہیں کہ جن سے صرفِ نظر کر لینے والوں سے مغفرت کی بابت قادر مطلق نے دو ٹوک معذرت کر لی ہے۔ توحید کاسیدھا سیدھا مفہوم یہ ہے کہ اس کائنات میںصرف ایک ہی ہستی ہے ، جو عبادت کے لائق ہے، جس سے مدد مانگی جا سکتی ہے، جو ہمارا خالق، مالک اور رزاق ہے، جس کی مرضی کے بغیر پتّا بھی نہیں ہل سکتا۔ زندگی، موت، عزت ، ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہے تو بغیر باپ کے عیسٰیؑ کو، بغیر ماں کے حوا ؑ کو اور بغیر ماں باپ کے آدمؑ کو پیدا کر سکتا ہے۔ وہ ہماری شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ وہ ازل سے ابد تک پیدا ہونے والے ہر جان دار کے دل میں جنم لینے والی ہر خواہش کو مِن و عَن پورا بھی کر دے تو اس کے خزانوں میں مچھر کے پر کے برابر بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ وہی ہمارا مولا، داتا، مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ اسے اپنے بندے کو عطا کرنے کے لیے کسی واسطے، وسیلے ، سفارش، حوالے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود فرماتا ہے کہ آپ کی سوئی بھی گم ہو جائے تو مجھے مدد کے لیے پکارو۔ اسی کا فرمان ہے کہ آدمی کے ٹوٹے ہوئے دل میں رہنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اور ہاتھ سے کام کرنے والا مزدور کسان میرا دوست ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسی ذاتِ برکات سے رجوع کرنے کے لیے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ بات صرف اتنی ہے کہ انسان کو بھٹکانے والے ابلیس کے بہکاوے میں آ کے ہم ظاہری خداؤں اور نظر آنے والے بتوں سے مانگنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اَن دیکھے، اَن چھوئے خدا کو ماننے کے ظرف سے ہم محروم ہو چکے ہیں۔ بقول شاعرِ مشرق: خوگرِ پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا کوئی ان دیکھے خدا کو کیوں کر؟ اسلام اور توحید کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے دین کا آغاز جس کلمہ طیبہ سے ہوتا ہے ، اس کاپہلا حرف ہی ’’لا‘‘ ہے، جس کے معنی ’’نہیں‘‘ کے ہیں۔ اس کا سیدھا سیدھا مفہوم یہی ہے کہ اس وادی میں قدم رکھنے سے پہلے دل کی سلیٹ کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ہر قوت سے انکار کی ضرورت ہے۔ دوسرے معنوں میں آپ کے اعتماد کی یہ صورت ہونی چاہیے کہ آپ ایک ایسی ہستی سے لو لگانے جا رہے ہیں، جو آپ کو دنیا کی دیگر تمام طاقتوں سے بے نیاز کر دے گی۔ بقول حکیم الامت: وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات لیکن اسے ہماری کمزوریٔ ایمان کا کرشمہ سمجھیے یا جہالت کا شاخسانہ کہ ہم اپنے عقیدۂ توحید کی حفاظت کرنے میں ناکام ٹھہرے ہیں۔ وہ عقیدۂ توحید جس کے بغیر ایمان مکمل تو کجا شروع بھی نہیں ہونے پاتا۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے کہ ہم بائی برتھ مسلمان ہیں، ہم نے کبھی بائی چوائس مسلمان بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یعنی جس چیز کو ہم اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں، وہی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ ہم کیسے عجیب و غریب لوگ ہیں کہ ایک لڑکی یا لڑکے سے رشتہ جوڑنے، بچے کو سکول داخل کروانے، محلے میں دکان یا پلاٹ خریدنے ، حتیٰ کہ بازار سے شیمپو خریدتے یا دوپٹہ رنگوانے میں توسو سو طرح کی احتیاطیں کرتے ہیں لیکن وہ دین جس پہ ہماری زندگی اورآخرت کا دارو مدار ہے ، اس کو کبھی تحقیق کی آنکھ سے دیکھنے یا اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، جو کچھ ہمارے باپ دادا، اڑوسی پڑوسی یا محلے کی مسجد کا ا مام بتا دے، اس پہ آنکھیں بند کرکے عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں، ڈاکٹر خورشید رضوی نے ہمار ے اس قوی المیے کی دیکھیے کس انداز سے نشان دہی کی ہے: کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے