شمالی بلوچستان ژوب کینٹ میں آپریشن کے دوران پاک فوج کے 9 جوان شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ژوب کینٹ میں کلیئرنس آپریشن مکمل کردیا گیا اور آپریشن کے دوران 5 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی۔بلوچستان اور وزیرستان میں دہشت گردی کے آئے روز کے واقعات سے پوری قوم پریشان ہے، جب بھی تحقیقات ہوئیں تو دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے بھارت سے جا ملے۔ دشمن ہمیشہ ملک کے اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتا ہے، حکومت اور سیاستدانوں کو سیاسی اختلافات ختم کر کے دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ ابھی ژوب کینٹ آپریشن کے واقعہ کا افسوس کر رہے تھے کہ خبر ملی بلوچستان کے علاقے سوئی میں آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے تین جوان شہید جبکہ دو دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور قوم دشمن کی ہر سازش ناکام بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ پاکستان کا امن خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کا عزم قابل ستائش ہے ، قوم کو بھی دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے۔ پچھلے دنوں ملتان میں آل پارٹیز صوبہ سرائیکستان کانفرنس منعقد ہوئی ، جمہوری وطن پارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری سینئر بلوچ قوم پرست رہنما رئوف خان ساسولی کانفرنس میں شریک ہوئے اور کانفرنس سے واپسی کے بعد جھوک سرائیکی میں انہوں نے وسیب کے نوجوانوں کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ میں پورے ملک کے دورے کرتا ہوں۔ پسماندگی کے حوالے سے مجھے بلوچستان اور وسیب کی ایک جیسی صورتحال نظر آرہی ہے، بلوچستان میں معدنی وسائل ہیں اور وسیب زراعت کا مرکز ہے مگر عام آدمی غربت اور پسماندگی کا شکار ہے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان دوہرے عذاب کا شکار ہے۔ نوجوانوں نے بلوچستان میں دہشت گردی بارے میں سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ملک دشمن قوتیں کر رہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں تخریب کاری کے جال بچھائے گئے جسے پوری قوم کو متحد ہو کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ قبائلی سرداروں کی بجائے بلوچستان کو ایک ایسے رہنما اور رہبر کی ضرورت ہے جو عام آدمی کی مشکلات اور مسائل کو سمجھتا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ، وہاں کی سیاست سرداروں کے پاس ہے جو کہ عام آدمی کو انسان نہیں سمجھتے ،بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ، مودی کے آنے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی مذموم کارروائیاں بڑھ چکی ہیں ، افغانستان کے راستے بھارت ڈبل گیم کر رہا ہے، وہ افغانستان سے صدیوں پرانا بدلہ لے رہا ہے ۔ نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ افغانستان کے لوگ کرائے کے قاتل ہیں ، پیسے لے کر ہر حملہ آور کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان پر چڑھ دوڑتے ہیں ، پاکستان بنے گا تو ہندوستان کی جان چھوٹ جائے گی ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارت افغانیوں کو پاکستان سے الجھا کر ایک طرف افغانستان سے پرانا بدلہ چکا رہا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان سے دشمنی پر کمر بستہ ہے ۔ پاکستان کو دولخت کرانے کے باوجود بھارت کی نفرت آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ، اس ساری کہانی کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا ادراک ضروری ہے ، تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ۔ روس افغانستان میں موجود رہا ، اسکے اپنے مفادات تھے ، اب روس کی جگہ بھارت نے لے لی ، امریکا خود کو افغانستان کا فاتح سمجھتا رہا ، امریکا کے اتحادیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ پاکستان کو صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کیلئے قومی و خارجی پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی ۔ پاکستان کو ایک نقصان خارجہ پالیسی سے بھی ہوا ہے، مشرف دور میں امریکا کو بلوچستان میں اڈے تک دئیے گئے تھے جس کے منفی نتائج بھگتنے پڑے۔ بلوچستان کی لیڈر شپ کا تعلق بالا دست طبقے سے ہے ۔ بلوچستان کو سرداروں کی نہیں ، غمخواروں کی ضرورت ہے ، بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے ، بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ، اس کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں ، این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں بلوچستان کو مرکز سے بھی فنڈز ملتے ہیں مگر یہ فنڈز عام آدمی کی بہتری یا بلوچستان کی ترقی کی بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ بلوچستان کے عام آدمی کیلئے جاپان نے فنڈز دیئے ، گوادر کے حوالے سے چین بھی دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بلوچستان اور پاکستان کی بہتری اس میں ہے کہ بلوچستان میں سرداروں کی بجائے عام آدمی کو مضبوط کر کے بھارت و افغانستان کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے ۔ بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں اور مداخلت کے تانے بانے تحقیق کرنے پر بھارت ، افغانستان سے ہوتے ہوئے امریکا اور اسرائیل تک جا ملیں گے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کی افغانستان اور افغانیوں سے ہمدردی رہی مگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سابقہ تاریخ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے موجودہ واقعات سے سابق و موجودہ افغان حکمران لا علم نہیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جا رہی ہیں ، قومی حکمت عملی بنانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔سیاستدانوں کی ذاتی لڑائیاں اپنی جگہ مگر اس مسئلے پر قومی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان میں بسنے والی قوموں کی تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے آثار کو محفوظ کیا جائے، خصوصاً بلوچستان کے معدنی اور دیگر وسائل پر بلوچستان کا حق تسلیم کرنا ہوگا اور وہاں سرداروں کی بجائے وہاں کے عام آدمی کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا، یہی بلوچستان کے مسئلے کا ایک حل ہے۔ مسائل سے اغماز نہیں برتنا چاہئے بلکہ مسائل کا کھلی آنکھوں کے ساتھ سامنا کر کے تمام مسائل کو حل کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنا چاہئے۔