جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں، ادب کا پہلا اور بنیادی مقصد حظ پہچانا ہے۔ ڈَز پہنچانا، حیران کرنا، پریشان کرنا وغیرہ کے خرخشے بہت بعد کے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری جامعات میںنمبروں سے جُڑی تنقید اور بلا ضرورت تحقیق کا شیرہ اتنا گاڑھا ہو چکا ہے کہ کسی بھی زبان میں لٹریچر کی ڈگری کا حصول طلبہ و طالبات کے لیے سیاپے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ غیر ملکی نظریات اور دھرتی سے کٹے افکار انھیں ہضم نہیں ہو رہے۔اپنے مقامی ادب پاروں کو کسی نہ کسی سابقہ، غیر ملکی یا ازکارِ رفتہ تھیوری کی روشنی میں پرکھنے کا عمل بعض اوقات مضحکہ خیز صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ادب کے طالب علم کے معیار کا اندازہ اُس کے کلاسیکی اور جدید ادب کے مطالعے سے ہوتا تھا، رفتہ رفتہ ان کی قابلیت رنگ برنگی تھیوریز رٹنے اور گھسے پِٹے موضوعات پر ایسی اسائمنٹس تیار کرنے سے وابستہ ہوتی چلی گئی، جو مارکیٹ میں پکوڑوں کے بھاؤ دستیاب ہیں ۔ پوری دنیا کی جامعات میں کارآمد تحقیق اور مزے دار تخلیقی کام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں تخلیق کا بیج تیزی سے مرتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کی بڑی جامعات کی مانند ہماری یونیورسٹی میں بھی چونکہ مشاہدے، تجربے اور تخیل کو کام میں لاتے ہوئے مختلف تخلیقی سرگرمیاں کروانے کا عمل ہر سمسٹر میں دہرایا جاتا ہے، جن میں سے ایک طریقہ ان سے کہانی لکھوانے کا بھی ہے۔ کلاس کے مختصر ترین وقت میں رنگا رنگ کہانیاں تراش لینے سے ان کی قوتِ متخیلہ و تخلیقہ کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اگر ان نوجوان تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ ہر فورم پہ سکرپٹ رائٹنگ کے کمال جوہر دکھا سکتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک کلاس کے محدود وقت میں طلبہ و طالبات کو یہی ٹاسک دیا گیا تو عجلت اور اخذ و استفادہ کے باوجود کئی عجیب و غریب کہانیاں سامنے آئیں۔ کالم کے اختصار کے پیشِ نظر فی الحال متعدد کہانیوں میں سے تین پیش ہیں۔ شاید ان میں نئی نسل کے لیے کہانی لکھنے یاسوچنے سمجھنے کے کچھ دَر وا ہو جائیں۔ پہلی کہانی مِشا عمران کی بہ عنوان ’’اسلم انکل‘‘ ہے جو اُس کے بقول حرف بہ حرف سچ ہے، ملاحظہ کیجیے: ’’وہ میری زندگی کے خوف ناک لمحات تھے، مَیں ابھی چود سال کی تھی کہ میرے بابا نے اپنے ایک قریبی دوست اسلم انکل کے ساتھ مل کے مشترکہ کاروبار کا آغاز کیا۔ اللہ کے فضل سے کاروبار میں بہت برکت ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد بابا نے شاید سیاسی اختلافات کی بنا پر کاروبار الگ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ان کے دوست بابا کے اس فیصلے پر خوش نہ ہوئے۔ بہرحال کچھ دن کی بحث و تمحیص اور حساب کتاب کے بعد کاروبار الگ ہو گیا۔ اس واقعے کو گزرے ابھی چند ہفتے ہوئے تھے کہ ایک دن سکول کی پرنسپل نے بتایا کہ مجھے کوئی چھٹی سے پہلے لینے آیا ہے۔ مَیں پرنسپل کے دفتر میں پہنچی تو وہاں اسلم انکل بیٹھے تھے۔ انکل سے میری بچپن ہی سے خوب دوستی تھی۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے اپنے بچوں کی طرح پیار دیا۔ ایک دوسرے کے گھر میں آنا جانا بھی تھا۔ انھوں نے جب بابا کی مصروفیت کا بتایا تو مَیں بخوشی ان کے ساتھ چل دی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی انھوں نے مجھے جوس کا ڈبہ دیا کہ پی لو بہت گرمی ہے۔ جوس پیتے ہی میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔ جب ہوش آیا تو خود کو ایک بند کمرے میں اس حالت میں پایا کہ میری آنکھوں پر باریک سے کپڑے کی پٹی بندھی تھی۔ برائے نام روشنی سی محسوس ہو رہی تھی۔ مَیں نے ہلنے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ ہاتھ اور پاؤں بھی بندھے ہیں۔ وہ میرے لیے بڑے خوف ناک لمحات تھے۔ زیادہ تفصیل میں جانے سے گریز کروں گی لیکن اتنا بتاتی چلوں کہ مَیں نے پورے پچیس روز تقریباً اسی حالت میں گزارے۔ اللہ کے فضل اوروالدین کی بے شمار کاوشوں کے بعد بالآخر آزاد تو ہو گئی لیکن میرے ذہن میں انسانی رشتے اور رویے اب تک کیڑوں کی طرح رینگ رہے ہیں… دوسری کہانی داؤد الماس کی ’جلد بازی‘ ہے۔ مومن اور عاقل دو دوست تھے جو ایک یونیورسٹی سے بی ایس کر رہے تھے۔ دونوں کا آپس میں نہ صرف گہرا یارانہ تھا بلکہ ایک دوسرے کی چیزوں کو بھی بلاجھجک استعمال کر لیتے۔ ایک دن عاقل نے مومن کو بتایا کہ کل مجھے کتاب لینے کے لیے اُردو بازار جانا ہوگا، جس کے لیے مجھے تمھاری بائیک کی ضرورت پڑے گی۔ چنانچہ اگلے روز اس نے مومن کو دو بار کال کی لیکن اس نے کال نہ اٹھائی۔ پھر اسے وٹس ایپ پہ پانچ چھے میسج کیے لیکن مومن نے میسج دیکھے تک نہیں۔ ایک گھنٹا مزید انتظار کرنے کے بعد عاقل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ غصے میں آ کر اس نے مومن کا نمبر بلاک کر دیا۔ ویک اینڈ گزارنے کے بعد جب عاقل یونیورسٹی گیا تو اسے وہاں بھی مومن نظر نہ آیا۔ یہی سلسلہ جب ہفتہ بھر چلتا رہا تو عاقل کو پریشانی ہوئی ۔ وہ اسی دن عاقل کے ماموں کے گھر پہنچا، جہاں مومن رہائش پذیر تھا۔ ماموں کے گھر والوں نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل مومن کے والد وفات پا گئے تھے، جس کی وجہ سے اسے جلدی جلدی گاؤں جانا پڑا لیکن جانے سے پہلے وہ موٹر سائیکل کی چابیاں گھر دے گئے تھے کہ میرا دوست عاقل آئے تو اسے دے دینا، اسے بائیک کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سن کر عاقل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اسے اپنے رویے پہ بہت شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ چنانچہ اس نے فوری طور پر مومن کے گاؤں کا رُخ کیا… تیسری کہانی ہماری طالبہ اغنا دانیال کی ہے ، جس کا عنوان ’تربیت‘ ہے، ملاحظہ کیجیے: دُور کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی۔ شادی کے طویل عرصے کے بعد دعاؤں، التجاؤں سے اس کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس پر وہ بہت خوش تھی۔ وہ اپنے بیٹے سے اتنی محبت کرتی تھی کہ ہر نوالہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی۔ خود اس کا منھ ہاتھ دُھلاتی، کپڑے تبدیل کراتی، جہاں جانا ہوتا اسے اپنی پیٹھ پر سوار کرا کے لے جاتی۔ سال گزرتے گئے اور اس خاتون کا بیٹے کی خدمت اور سہولت کاری کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر ایک دن وہ لمحہ بھی آیا جب وہ عورت بیمار ہو گئی۔ ایسی بیمار کہ اس کا چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا۔ ٹانگوں میں جان اور ہڈیوں میں سکت نہ رہی۔ اب اسے بیٹے کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس نے بیٹے کو آواز دی کہ مَیں بہت نڈھال ہو گئی ہوں، میرے لیے روٹی لے آؤ! بیٹے نے جواب دیا کہ ماں! میرے تو ہاتھ ہی نہیں ہیں! عورت نے بیٹے کی طرف حسرت سے دیکھا اور بولی: اچھا یوں کرو مجھے اٹھا کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، میری کمر میں بہت درد ہے۔ بیٹے نے جواب دیا: ماں! میرے تو پاؤں ہی نہیں ہیں، مَیں نے انھیں کبھی استعمال ہی نہیں کیا! یہ سُن کر ماں ششدر رہ گئی ، وہ رونے اور خود کو کوسنے لگی کہ میرے ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار نے اولاد کو اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی بجائے معذور بنا دیا۔ اب وہ اپنے کام کا رہا ہے، نہ میرے کام کا…