تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر! امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی نہایت بہیمانہ طریقے سے ہلاکت کی خبریں معمول بنتی جا رہی ہیں۔بالخصوص سکولوں میں خون کاکھیل تو لگا تار جاری ہے۔ 24 مئی 2022ء منگل کوامریکی ریاست ٹیکساس کے اوالڈے شہر کے ایک پرائمری ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ سے دوسری سے چوتھی جماعت تک کے 19 بچوں سمیت 21 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والے دوسری سے چوتھی جماعت تک کے بچوں کی عمریں 7 سے 10برس تک تھی۔امریکی ریاست ٹیکساس کے پرائمری سکول کے بچوں کوبہیمانہ طریقے سے قتل کرنے والے 18 سالہ لڑکے سلوڈارراموس نے ہینڈ گن اور رائفل کا استعمال کیاجبکہ فائرنگ کرنے والا نوجوان بھی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل ہوا۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ میں ایسے پرتشدد واقعات میں قومی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سکول میں پانچ سو بچے پڑھ رہے تھے۔ اوالڈے شہر میں تقریبا 16000 لوگ بستے ہیں اور مقامی ہائی سکول میں 20مئی 2022ء جمعہ کو گریجویشن کی تقریب بھی منعقد ہونی تھی۔لیکن اسے قبل ہی نہایت بھیانک طریقے سے قاتل نے سکول میں بچوں کوخون میں نہلایا۔ امریکہ میں سکول فائرنگ کے واقعات گزشتہ کچھ عرصے میں بڑھتے جا رہے ہیں’’ اور ایڈ ویک‘‘ نامی تعلیمی اشاعتی ادارے کے مطابق سال 2021ء میں ایسے 26 واقعات امریکی سکولوں میں پیش آئے۔ امریکی سرکاری رپورٹ کے مطابق2020ء میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے اور فائرنگ کے زیادہ تر واقعات، تقریبا دو تہائی، ہائی سکول کے درجے کے اداروں میں ہوئے اور ایلیمنٹری سکول کی سطح پر ایسے واقعات زیادہ تر حادثاتی طور پر پیش آئے ۔ 2018ء میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کے نزدیک سانتا فے ہائی سکول میں ایک طالبعلم کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے 10 افراد میں زیادہ تر طلبہ تھے۔اس سے قبل2012ء میں امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے میں ہلاک ہونیوالے 26 بچوں میں سے 20 ایسے تھے جن کی عمریں5 سے 6 سال تک تھیں جبکہ حملہ کرنے والے نوجوان کی عمر20 سال تھی۔امریکہ کے سکولزمیں اسی وجہ سے پرائمری اور ہائی سکول میں بچوں کو ایسی مشقیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد ایسی کسی صورت حال سے نمٹنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکت کی خبریں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پر سب سے زیادہ بندوقیں اور پستول پائے جاتے ہیں۔ سکولوں کے علاوہ بھی امریکہ میں بھیانک انداز میں شہریوں پر فائرنگ ہوتی ہے اور آن واحد میں درجنوںامریکی ہلاک ہوجاتے ہیں اوراکثر دیکھا یہ گیاہے کہ حملہ آور اورفائرنگ کرنے والا شخص بالعموم امریکی شہری ہی ہوتا ہے جسے اکثر موقع پر ہی گولی مار کرہلاک کردیا جاتا ہے اوربعد میں پولیس کا اکثر یہ بیان سامنے آتا ہے کہ فائرنگ کرنے والا ذہنی مسائل کاشکار تھا۔ حواس باختگی کے عالم میں اس نے یہ جرم کیا ہے ۔لیکن اگر کبھی فائرنگ کرنے والا مسلمان نکلا تو فوری طور پر پولیس کی طرف سے بیان جاری ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا جسے پولیس چھان پھٹک کررہی ہے اورفائرنگ کرنے والے کے حوالے سے ڈیٹا جمع کیا جا رہا ہے جس سے پتا چل جائے گا کہ اس کا ماضی اورحال کیسے گزرا ہے ۔ امریکہ میںذاتی اسلحے کے حق میں سرگرم تنظیم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن ایسی قانون سازی کی مخالفت کرتی رہی ہے جس میں اسلحے پر کسی بھی قسم کی پابندیاں لگائی جائیں۔ بہت سے امریکی اسلحہ رکھنا اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پیش آنے والے فائرنگ کے کچھ واقعات پر غور کیا جائے توپتاچلتا ہے کہ کس طرح امریکیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ریکارڈ سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں فائرنگ کے کتنے خوفناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔دسمبر2015ء کوامریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان برنانڈینو کے ایک سوشل سروس سینٹر میں فائرنگ ہوئی جس میں 14افراد ہلاک ہوئے۔ پولیس سے فائرنگ کے تبادلے میں دونوں حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا۔ ذہنی مسائل اور بیماریوں کا شکار افراد کی مدد کے مرکز میں فائرنگ کرنے والے یہ دونوں افراد خودکار رائفلوں سے مسلح اور جنگی لباس میں ملبوس تھے۔12 جون، 2016 ء کوامریکی ریاست فلوریڈا میں ہم جنس پرستوں کے ایک نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے 49 افراد کو ہلاک کر دیا گیا حملہ آور خود بھی پولیس مقابلے میں موقع پرہی ماراگیا۔ یکم اکتوبر 2017ء کوامریکی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگس میں 64 سالہ سٹیون پیڈک نے ایک عمارت کی 32 ویں منزل سے کنسرٹ کے لیے جمع ہونے والے ہجوم پر فائرنگ کردی اوروہ 15 منٹ تک ہزاروں گولیاں برساتا رہا جس سے 58 افراد ہلا ک جبکہ 500 کے قریب زخمی ہوئے۔بعد میں پیڈک نے خودکشی کر لی۔5 نومبر 2017ء کوٹیکساس میں ڈیون پیٹرک کیلی نامی شخص نے ایک چرچ پر حملہ کر کے 25 افراد کو ہلاک کر دیا اور بعد میں وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔ 19مئی 2018ء کوایک بارپھرامریکی ریاست ٹیکساس میں شہر ہیوسٹن کے نزدیک سانتا فے ہائی سکول میں ایک طالبعلم کی فائرنگ سے 10 افراد ہلاک جبکہ10زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد طلبہ کی تھی۔17سالہ حملہ آور طالبعلم دیمیتریوس پگورٹزس کو پولیس نے دبوچ لیا۔