میرے جیسے طالب علم توہین عدالت کے قانون میں با معنی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے اور پارلیمان توہین عدالت کے قانون کے ذریعے معاشرے کے شعور اجتماعی کے تابوت میں ایک تازہ کیل ٹھونکنے جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟ توہین پارلیمان ، پھر توہین بیوروکریسی ، توہین وکلاء ، توہین صحافت ۔۔۔۔قانون سازی کی اس زنبیل سے کیسے کیسے گوہر نایاب نکلیں گے ، آدمی تصور کر کے ہی کانپ جاتا ہے۔ پارلیمان کی عزت ہونی چاہیے ، اس میں کوئی شک نہیں۔ پارلیمان کو گندگی کا ڈھیر یا اس جیسے القابات دینا بھی غیر موزوں حرکت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ تنقید کے لیے آسان ترین ہدف وطن عزیز میں پارلیمان ہی رہی ہے۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ رد عمل میں اب پارلیمان بھی قانون سازی کے ذریعے سماج کی قوت گویائی سلب کرنے کا فیصلہ کر لے۔ پارلیمان کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ اس کی عزت کسی قانون سے نہیں ہو گی ، عزت اس کے کردار سے ہو گی؟ قانون پارلیمان کے وجود کو تحفظ نہیں دے سکا ،تو اس کی عزت کیسے کروا لے گا۔ آرٹیکل چھ موجود ہوتا ہے اور پارلیمان گھر چلی جاتی ہے۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے اور وزیر قانون رجز پڑھتے پڑھتے منمنانے لگتا ہے کہ جونئیر ججوں کو سپریم کورٹ میں لانے کا فیصلہ ہم نے فلاں کے دبائو پر کیا۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے اور فیصلے دوبئی اور لندن میں ہوتے ہیں۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے اور پارلیمان سے باہر بیٹھے شخص کی فرمائش پر اسمبلیاں بر خواست کر دی جاتی ہیں۔جب کردار یہ ہو گا تو عزت کہاں سے ملے گی؟ پارلیمان نے اپنے بے توقیری خود کی ہے۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے لیکن وزیر اعظم یہاں تشریف لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے لیکن قانون سازی صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ہو جاتی ہے۔ پارلیمان موجود ہوتی ہے لیکن اسے بتائے بغیر آئی ایم ایف سے معاملات کر لیے جاتے ہیں۔پارلیمان موجود ہوتی ہے مراعات بھی لیتی ہے لیکن اس کے کورم ہی پورے نہیں ہوتے۔ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترنے و الے جعلی حاضریاں لگا تے رہتے ہیں۔قدم قدم پر ان کے استحقاق مجروح ہو جاتے ہیں۔ جب ہارس ٹریڈنگ ہو گی۔ جب ضمیر بکیں گے۔ جب لوٹا سازی ہو گی۔ جب کردار یہ ہوگا تو قانون کا پہاڑ بھی کھڑا کر دیں تو عزت نہیں ملے گی۔ پارلیمان کو جتنے کلو گرام عزت چاہے اتنے ہی کلوگر ام کردار دکھانا ہو گا۔ یہ دولت کہاں ہے؟سچ تو یہ ہے کہ پارلیمان کی سب سے زیادہ بے توقیری خود پارلیمان نے کی۔ ایک دوسرے کے بارے میں یہ خود جو ارشادات فرماتے رہتے ہیں اس رویے کے ہوتے ہوئے پارلیمان کی عزت کوئی کیسے کرے گا؟ ایک طالب علم کے طور پر میری شعوری رائے پارلیمان کے حق میں ہے۔ یہ صرف پارلیمان ہے جس پر تنقید کر کے لوگ رستم اور تیس مار خان بنے پھرتے ہیں۔ یہ صرف پارلیمان ہے جس کے اراکین سے سوال ہو سکتا ہے۔ ورنہ نظریہ ضرورت سے بھٹو کے عدالتی قتل تک کیا کسی ایک کے ذمہ دار سے بھی کوئی سوال پوچھ سکا۔ میری ساری ہمدردیاں پارلیمان کے ساتھ ہیں لیکن اس کے باوجود اس حرکت کا دفاع نہیں کیا جا سکتا جو قانون سازی کے نام پر پارلیمان میں کی جا رہی ہے۔ پارلیمان اگر یہ سمجھتی ہے کہ کوئی اور ادارہ ضرورت سے زیادہ طاقت ور ہو گیا ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ پارلیمان بھی خود کو جواب میں ضرورت سے زیادہ طاقت ور کرنے کی کوشش کر لے۔ اس کا حل یہ ہے کہ سب اداروں کو اپنے اپنے آئینی دائرہ کار میں بھیج کر اصلاح احوال کی جائے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل تک تو بات قابل فہم تھی کہ سپریم کورٹ کے اختیارات ایک فرد واحد کی بجائے ادارہ جاتی سطح پر ریگولیٹ کیے جائیں ۔ لیکن رد عمل میں اب خود بھی غیر ضروری اختیارات لینے کی کوشش ایکک ایسافعل ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ جمہوریت نہیں ہے ۔ یہ رویہ بھی جمہوری نہیں ہے۔ توہین عدالت کا قانون بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ عجیب و غریب قانون سازی ہے کہ توہین عدالت کے غیر ضروری قانون میں با معنی اصلاح کی بجائے پارلیمان بھی اسی قانون سے لوگوں کو حد ادب سکھانے لگ جائے۔ توہین عدالت کا قانون اس شکل میں تو درست ہے کہ عدالت کی حکم عدولی یا اس کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے لیکن یہاں تو قانون یہ ہے کہ آپ کسی جج کا کنڈکٹ بھی زیر بحث نہیں لا سکتے۔ حتی کہ پارلیمان میں بھی اس کی اجازت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوںنہیں لا سکتے؟ اور جواب یہ ہے کہ یہ قانون بھی خود پارلیمان نے بنایا تھا۔ پارلیمان نے یہ قانون اس وقت بنایا تھا جب عدلیہ نظریہ ضرورت جنم دے چکی تھی۔ تو کیا ضرورت پڑی تھی اس پارلیمان کو کہ ایسا قانون بنائے؟ کم از کم اتنا ہی کر دیا ہوتا کہ شائستگی کی حدود میں رہ کر ججوں کے کنڈکٹ پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی۔ لیکن پارلیمان نے مکمل پابندی عائد کر دی۔خود ہی عائدکر دی اور آئین میں لکھ دیا۔ اب آ کر پارلیمان کو احساس ہو رہا ہے کہ یہ قانون تو کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ۔آپ پارلیمان کے تضادات دیکھیے کہ بجائے اس کے کہ وہ توہین عدالت کے قانون میں با معنی اصلاحات کرے اور اس قانون میں سے نو آبادیاتی دور غلامی کی روح نکال دے ، وہ خود بھی اسی ہتھیار سے مسلح ہونا چاہتی ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان اس وقت آمنے سامنے ہیں۔ آخری تجزیے میں جو ڈیشل ایکٹوزم مسئلے کا حل نہیں ہے خود ایک مسئلہ ہے۔جوڈیشل ایکٹوزم نے پاکستان کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں ۔ یہاں سموسوں اور چپلی کباب سے لے کر عتیقہ اوڈھو کے بیگ تک پر سو موٹوہوتے رہے۔اس اختیار کو ریگولرائز کرنے کی ضرورت تھی ۔ طے ہونا چاہیے کہ کون سا مسئلہ عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ ہم جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ ایف سکس کے سموسے ، پشاور کے چپل کباب اور عتیقہ اوڈھو کا بیگ عوامی اہمیت کا مسئلہ کیسے قرار پائے۔ سوموٹو کون لے گا؟ اس کا تعین بھی ضروری ہے۔ بہت سارے سوالات ہیں اور جس معاشرے میں انصاف کا حال یہ ہو اس معاشرے میں عدلیہ کے کردار پر بات ہونی چاہیے۔ ہاں مگر یہ ضروری ہے کہ وہ بات شائستگی کے دائرے میں رہ کر ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ جواب میں پارلیمان ایک پارلیمانی ایکٹوزم لے کر میدان میں آ جائے۔یہ قانون سازی ہے یا بچوں کا کھیل ہو گیا؟ اگر ایک چیز عدلیہ کے ہاں درست نہیں تو وہی چیز پارلیمان کے لیے کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے۔پارلیمان اگر رد عمل میں قانون سازی کرے گی تو معاشرے کو تباہی سے دوچار کر دے گی۔پارلیمان کا پہلا قانون بھی غلط تھا، جو اس نے عدلیہ سے محبت کی وارفتگی میںبنایا تھااور اپنے ہی ہاتھ باندھ لیے تھے۔ پارلیمان کا یہ قانون بھی ناقص ہے جووہ عدلیہ کے رد عمل میں بنا رہی ہے اور ڈنڈے سے عزت کرانا چاہتی ہے۔