شافع محشر…بعض احباب کا استفسار ہے کہ میرا کالم کچھ ہفتوں سے مدینہ پہ رکا ہوا ہے۔ انھیں کیسے بتاؤں کہ میرے بھائی یہ کالم نگار نہ صرف خود بلکہ اس کے دل و جان، اس کے جذبات و احساسات، اسی مقامِ مقدسہ پہ رکے ہوئے ہیں۔نہ صرف رکے ہوئے ہیں بلکہ دم بخود ہیں۔ اس حسرت کے ساتھ کہ کاش میری قوم ، میرے لیڈران، میرے علماء اپنی اپنی ڈفلی بجانے کی بجائے اسی جیتے جاگتے مرکز پہ رک جاتے کہ ہماری عظمت و عروج کا سفر یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اسی مدینہ معظمہ میںسطوت و حشمت کے ساتھ قائم مسجدِ نبویؐ ساڑھے چودہ سو سال سے ہمارے لیے دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کا عظیم سمبل ہے۔ یہ آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی انسپریشن ہیں۔ اسلام میںمسجد کو ایک ادارے کے طور پر تعمیر اور متعارف کرایا گیا تھا۔سب جانتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کے لیے تو بمشکل ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔باقی اوقات میں انھیں جدید علم کی تدریس،مقامی معاملات سلجھانے کے لیے عدالت،اہلِ علاقہ کی فلاح کے بے شمار امور کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے نبیِ معظم ﷺ نے بھی نہ صرف اس پہ عمل کر کے دکھایا بلکہ اس کی تلقین بھی کی۔ساتھ ہی علاقے کی سب سے معتبر (ہمارے ہاں معتبر بھی دولت مند یا دھونس دار کو سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس سے مراد باکردار اور قابلِ اعتبار شخص ہوتا ہے)شخصیت کو نماز کی امامت کرانے کی ہدایت کی۔ بدقسمتی سے دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی موروثیت و مغلوبیت، غالب ہے۔سیاست دانوں کی طرح مولوی کا بیٹا جیسا بھی ہے، جتنا بھی ہے، اپنی تمام تر کم علمی،کُند ذہنی، دریدہ دہنی اور بے عملی کے باوجود وہی اگلا ’معتبر‘ قرار پائے گا۔ اس سے بھی بڑھ کے المیہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری مساجد، نبیﷺ کی ہدایت و روایت کے برعکس، اُمتِ مسلمہ کی اصلاح و فلاح کے مرکز کم اور فرقہ پروری کے اڈے زیادہ بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک افسوس ناک صورت یہ بھی پختہ ہو چکی ہے کہ ہم نے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی خواتین کا مسجد میں داخلہ تقریباً تقریباً ممنوع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں بیت اللہ اور مسجدِ نبویؐ ہی سب سے بڑے نمونے ہیںِ،جہاں خواتین کو عبادت کی کھلم کھلا اجازت ہے۔ اسی طرح پوری دنیا کی مساجد میںخواتین آخری قطار یا مسجد کے مقرر و مخصوص گوشے میں نماز با جماعت ادا کرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن ہم نے نوے پچانوے فیصد مساجد میں یہ چیپٹر ہی کلوز کر رکھا ہے۔ بعض ’مستعد‘ لوگوں نے تو مساجد کے باہر لکھ کے لگا رکھا ہے کہ یہ مسجد فلاں فرقہ کے لوگوں کے لیے مخصوص ہے، دیگر حضرات زحمت نہ کریں۔ خواتین کے لیے ہم نے لکھ کے تو نہیں لگایا مگر مردوں کے رویوں، نظروں اور حرکات میں جلی حروف میں لکھا ایک بورڈ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی کی جماعت نکل جائے، بیشتر مساجد میں دوبارہ جماعت کروانا سختی سے ممنوع ہے ، حالانکہ حرمین شریفین میں دو لوگ بھی جماعت سے رہ گئے تو ان میں سے ایک امام بن گیا اور وہ نہایت سہولت سے جماعت کرواتے نظر آتے ہیں۔ یہی حکمِ نبویؐ اور طریقِ صحابہؓ بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے نبیﷺ کی اُن سنتوں کو تو یاد بلکہ آباد رکھا ہے، جن کا تعلق ہمارے معدے یا مالی مفاد سے ہے۔ ہم نے آپ ﷺ کی کامل سیرتِ طیبہ کو ذہن، عمل یا زندگی کا حصہ نہیں بنایا، یہی ہماری پسماندگی اور بے برکتی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جس حکم میں ذرا سا بھی تردد، تعقل، تفکر کو دخل ہے، ہم اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ ہمیں حلوہ، گوشت، داڑھی والی سنت تو ازبر ہے لیکن پڑوسیوں کا خیال، ہاتھ سے کام کرنے، معاشرتی مساوات، سستے اور فوری انصاف، سچائی، ایمان داری، بلند کرداری، بیوہ کے حقوق، شادیوں کے جلد اور بلا خرچ اہتمام کرنے والی سنتیں یاد نہیں۔ ہمارے پیارے رسولﷺ کے یہ کتنے پیارے، مفید اور واضح فرمودات ہیں کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں… منھ زبانی یہ فرمان سب کو یاد ہے لیکن عمل کا یہ حال ہے کہ ذرا پورے ملک سے کھانے پینے کی خالص چیزیں ڈھونڈ کے دکھا دیں، بس چیزوں کے نام اسلامی رکھ لیے ہیں۔ دوسری جانب غیر اسلامی ممالک میں ان چیزوں میں ملاوٹ کی سزا موت ہے۔ سعودی عرب والوں کو اس فرمان کی شدت کا احساس ہے، آپ وہاں ہوٹلوں، دکانوں میں ملاوٹ والی چیز ڈھونڈ کے دکھا دیں، حالانکہ وہ پچانوے فیصد سے زائد اشیا وہ برآمد کرتے ہیں، کسی ملک میں جرأت نہیں کہ انھیں دو نمبر یا ناقص چیز ایکسپورٹ کرے جب کہ ہمارے ہاںدرآمد کردہ اشیا میں کمیشن کے علاوہ کچھ بھی خالص نہیں۔ اسی طرح فرمان ہے کہ طہارت نصف ایمان ہے… خبر یہ ہے کہ ہمارے سب سے بڑے شہر دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار ہیں۔ ہمارے گلی، محلّے، بازار، تفریحی پارک اس ہمہ وقت مفید حکم کا منھ چِڑا رہے ہیں۔ ہم کون سی سنت کی بات کرتے ہیں؟ پھر ارشاد ہے کہ کسی کی غیبت یا چغلی کرنا اپنے سگے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ لیکن ہماری تربیت، اخلاق اور ہدایت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے گھروں، بازاروں، تقریبات اور میل ملاپ کے مقامات کے ساتھ تمام دفاتر، ادارے اور سیاسی امور قابلیت یا کارکردگی کی بجائے خوشامد اور غیبت کے فیول سے چل رہے ہیں۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ دین شاید بعض چیزوں کے منھ زبانی اقرار کا نام ہے، جب کہ ہمارے نبیؐ نے اسے مکمل ضابطۂ حیات قرار دیا ہے۔ مشہور ہے کہ ایوب خاں نے مولانا مودودی سے کہا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ دین کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ تومولانا نے برجستہ جواب دیا کہ یہ تو صرف آپ کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن پوری قوم کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ آپ کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟ پھر امتِ مسلمہ کے لیے اس شافع محشر، منبعِ اخلاق کی یہ کتنی واضح نصیحت ہے کہ رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ دھیان رہے کہ محض گناہ گار نہیں کہا، سیدھا سیدھا جہنمی اور آگ میں جلنے والاکہا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی دفتر، کوئی ادارہ، کوئی پراجیکٹ، کوئی ٹھیکہ، کوئی نوکری، کوئی تبادلہ، کوئی پوسٹنگ، کوئی قرضہ، حتیٰ کہ کوئی درآمد برآمد اس رشوت کہ جسے، کمشن، مٹھائی، گفٹ وغیرہ جیسے نام دے دیے گئے ہیں، کے بغیر تلاش کرنا کارِ دشوار ہی نہیں، کارِ دارد ہے۔ اسی طرح تعلیم پہ جتنا زور ہمارے دین نے دیا ہے، شاید کسی اور مذہب نے دیا ہو لیکن عمل کا یہ عالم کہ جہالت میں ہم پہلا انعام جیتنے والے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے طرزِ عمل پر حیرانی ہے کہ وہ آپؐ کے فرموداتِ عالیہ پہ عمل کرنا تو دور کی بات ، انھیں آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ ایسے میں میرا مدینہ سے دھیان ہٹے تو کیسے ہٹے؟