مدینہ کے تحائف…بائیس جون،جسے سال کا سب سے بڑا دن سمجھا جاتا ہے،اس دن ہمارا دنیا کے سب سے معتبر و متبرک شہروں کے درمیان کوچ و قیام و طعام کا سلسلہ احترامِ مدام کے ساتھ شروع ہونا تھا یعنی پہلی فلاحی اسلامی ریاست مدینہ منورہ سے ہم حاجیوں کی قبلۂ افضل و اعظم و مرکزِ حج مکہ معظمہ کی جانب روانگی تھی۔ رُوئے کائنات پہ ہمہ وقت جگمگاتا، دنیا بھر کے مسلمانوں کے قدموں، سجدوں، وِردوں، دعاؤں، عبادتوں، حیرتوں، مسرتوں، شادابیوں اور سرگوشیوں سے شاد آباد یہ کیسا روشن شہر ہے جو زمین پہ کم اور اہلِ ایمان کے دلوں میں زیادہ بستا ہے۔ محسنِ کائناتؐ کے خون پسینے کی مہک، ایمانِ راسخ و کامل کی دمک، محنت و مشقت کا قرینہ، ہمت و حوصلے کا سفینہ، علم و شعور و آگہی کا پرچار، سادہ و باوقار زندگی گزارنے کے ناقابلِ فراموش اور قابلِ تقلید نمونوں کی مثالیں، توحید کا تبرک، توکل کا سلیقہ، رسالت کی خوشبو، اِس کی ہواؤں، فضاؤں، اداؤں میں موجود ہے۔ کل عالم کے عقیدت مند بلا تفریقِ رنگ و نسل و عمر و امارت، یہاں سے لباس اور قیاس کی جھولیاں بھر بھر کے ثواب، خورجیاں اور بکسے بھر بھر کے کھجوریں، نظریں اور کیمرے بھر بھر کے نظارے، جیبیں اور سوٹ کیس بھر بھر کے تحائف اپنے پیاروں کے لیے لے کے جاتے ہیں۔ بعض طالع آزما مدینہ کی گلیوں میں قصداً یا سہواً بھٹکنے کا مترنم عندیہ بھی دیتے ہیں اور کئی سر فروش تو سامان کا حجم بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہاں دفن ہونے کے دعوے کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن میری تمام مومنینِ با صفا اور بالخصوص اپنے اہلِ وطن کے لیے ہمیشہ ایک ہی دعا، ایک ہی تمنا بلکہ حسرت رہی ہے کہ کاش ہم صداقت اور امانت کے مجسم پیکر کی اس مقدس دھرتی سے اعتکافوں، نوافل اور ثوابوں کے ہمراہ سچ بولنے کا کچھ سلیقہ اور دیانت داری کا تھوڑا سا زادِ سفر بھی ساتھ لے چلیں کہ ہمارا معاشرہ جو اس وقت ہمہ اقسام کے جھوٹ سے آبھرا پڑا ہے۔ حکمرانوں اور میڈیا سے لے کے استاد اور مسیحا تک، عالم اور مبلغ سے لے کے تاجر اور آجر تک، دودھ، شہد بیچنے والے سے لے کے ایک ٹھیلے یا ریڑھی والے تک کی رگ رگ میں نیلے، پیلے، گیلے، رسیلے جھوٹ کا فلسفہ یا مرض سرایت کر چکا ہے، شاید اس سے کچھ آرام مل جائے… پھر تھوڑی سی ہمت کر کے سادگی اور مساوات کا بیش قیمت فلسفہ ہی کسی بقچی میں رکھ لیں، ممکن ہے ہمارے دماغوں کو چڑھے، سفید پوشوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دینے والے سوشل سٹیٹس، زندگیوں کو جہنم بناتی معاشرتی اونچ نیچ، خواہ مخواہ کی رعونت پہ اِتراتی ذات پات، روز افزوں طبقاتی تفریق، قومی خزانے اور بیرونی قرضوں کی بندر بانٹ نیز کروڑوں عوام کا مقدر کھا جانے والے، ہوسِ زر اور شر میں بری طرح مبتلا چند گردن زدنی خاندانوں کے شافی و کافی علاج کی کوئی سبیل نکل آئے۔ شادیوں، منگنیوں، سالگرہوں، فوتگیوں، مکانوں، دکانوں، بازاروں، تہواروں، جھوٹے نظاروں پہ ہونے والی بلا جواز فضول خرچیوں اور غیر اسلامی شعار و کردار ہی سے نجات مل جائے۔ ذرا سی کوشش سے صحابہ کرام ؓ کی قابلِ تحسین و تقلید زندگیوں کے مطالعے سے، انسانی دلوں کو کردار اور معیار سے جیتنے اور چھوٹی سے چھوٹی بات میں عام آدمی کے سامنے جواب دہ ہونے والے طرزِ حکومت کا کوئی عکس اٹھا کے لے آئیں۔ اِمکانِ واثق ہے کہ اس طرح ہمیں مکار لوگوں کے لیے قدم قدم بچھی پروٹوکول جیسی قبیح لعنت، تعیشات کے بدبودار کلچر اور قبروں میں قالین بچھانے جیسی بدعات ہی سے نجات مل جائے۔ اسی شہرِ دل پذیر سے منافقین کے لیے اختیار کردہ طرزِ عمل کی ایک جھلک ہی محفوظ کر لیں، شاید ہمیں مکروہ اشرافیہ سے نجات مل جائے۔ قرونِ اُولیٰ والے فوری اور دو ٹوک عدل و انصاف کا سلیقہ ہی سیکھ لیںتاکہ ہماری عدالتوں میں دھکے کھاتی مخلوق کا ہی کچھ بھلا ہو جائے۔ عدالتوں کا مذاق اڑاتی رعونت کا خاتمہ ہو جائے۔ سیاسی پارٹیوں کے معاہدہ بردار منصفین کی بہتری کی صورت نکل آئے۔ مونچھ مروڑ طبقے کے دل میں خوفِ خدا کی کوئی لہر ہی پیدا ہو جائے۔ تھوڑی سی تحقیق کر کے محمد بن قاسمؒ کی غیرت کی رمق، خالد بن ولیدؓ کی شجاعت کی چمک، صلاح الدین ایوبیؒ کی بصیرت کی دمک ہی کھیسے میں ڈال لیں، اغلب ہے کہ ہمارے اندر سے باطل کا خوف ختم ہو جائے اور کچھ نہیں تو ہم کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو جھوٹے لارے لگانا اور نہتے لوگوں کو مروانا ہی چھوڑ دیں۔ حیرت اس بات پہ بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کے سینے میں ترازو یہ بے مثال بستی ، جسے ماضی میں یثرب کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اپنے زمانے کے اکابرین کی تمام تر مخالفت، چہار سُو دندناتی منافقت، ارد گرد پھیلی مخاصمت، منفی اقدار کی یبوست، فرسودہ رسوم کی نحوست، وسائل کے فقدان، مسائل کے طوفان کے باوجود، محض مٹھی بھر پُر اخلاص لوگوں کے حسنِ عمل، حسنِ ترتیب، حسنِ نیت، حسنِ سیرت، حسنِ انتظام، حسنِ کردار اور حسنِ اَخلاق سے نہ صرف پہلی اسلامی مملکت کا رُوپ دھار گئی بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے عظیم الشان شہروں میں شمار ہونے لگی۔ اسی پردیس میں بیٹھ کے مٹی گارے اور اَن گھڑت چٹانوں سے مسجدیں اور مکانات تعمیر کیے گئے، من گھڑت فسانوں پہ حق اور سچ کا روغن ملا گیا۔یہیں سے تین سو تیرہ نہتوں نے مشن کی صداقت اور جذبۂ ایمانی کی صلابت کے بل بوتے پر ہزاروں مسلّح لشکریوں کا مقابلہ کیا۔ اسی زمین کو سرزمین بنانے کے لیے پیٹ پہ پتھر باندھ کے پتھریلی زمینوں میںخندقیں کھودی گئیں اور یہیں پہ قیام کے دوران دنیاوی دولت اور ظاہری شان و شوکت سے بے نیاز اِن ہستیوں نے دنیا کے متکبر ترین آمروں کو دین کی حقانیت اور توحید کی برکات کا پیغام پہنچایا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ انھی مٹھی بھر سرفروشوں نے نانِ جویں کی خوراک اور پیوند زدہ پوشاک کے ساتھ خیبر جیسا قلعہ تسخیر کیا۔ دینی حکمت سے دنیاوی حماقت کو شکستِ فاش دی۔ ممنوع عادات کو مشروع عبادات میں بدلا گیا۔ دلوں اور دنیا پر حکومت کرنے کے اصول وضع کیے گئے، نہ صرف وضع کیے گئے بلکہ ان کی عملی مثالیں قائم کی گئیں۔ فوری عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ منافقین و مسلطین کا زور توڑا گیا۔ مخالفین سے بظاہر کمزور، بباطن بصیرت آمیز اور دُور اندیش معاہدے کیے گئے اور بالآخر دس سال کے قلیل عرصے میں خیر و برکات کا دھارا اور اپنا پیارا مکہ فتح کر لیا۔ اعلانِ نبوت کے بعد محض تئیس سالوں میں دین کی تکمیل کے ساتھ ساتھ کل عالم میں اسلام اور خدا کے پیغام کا بول بالا کر دیا۔ مولانا حالی نے مسلمانوں کا تابناک ماضی بیان کرتے ہوئے ان معدودے چند سرفروشوں کی جدت، حدت، شدت کے عالم کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے: گھٹا اِک پہاڑوں سے بطحا کے اُٹھی پڑی چار سُو یک بیک دھوم جس کی کڑک اور دمک دُور دُور اس کی پہنچی جو ٹیگس پہ گرجی تو گنگا پہ برسی رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی ہری ہو گئی ساری کھیتی خدا کی لیے علم و فن ان سے نصرانیوں نے کیا کسبِ اَخلاق روحانیوں نے ادب ان سے سیکھا صفاہانیوں نے ہر اِک دل سے رشتہ جہال کا توڑا کوئی گھر نہ دنیا میں تاریک چھوڑا (جاری ہے)