سرائیکی امان اللہ ارشد کے مصرعے ’’ڈوہیں مویوں ارشد پانی توں، تیکوں چھل ماریے ، میکوں تریہہ ماریے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں پانی سے مارے گئے ، تم سیلاب سے اور ہم پیاس سے ۔ وسیب کی یہی کہانی ہے، ابھی چند ماہ قبل جب فصل خریف کاشت ہو رہی تھی تو کسانوں کی طرف سے العطش العطش کی صدائیں آ رہی تھیں یعنی کاشتکار پانی پانی کر رہے تھے، نہروں میں پانی نہیں تھا، چولستان میں بھی لوگ پیاس سے مر رہے تھے مگر جب ضرورت ہوتی ہے تو پانی مہیا نہیں کیا جاتا ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر قابل کاشت رقبے کیلئے بھی پانی ملنا چاہئے مگر زیر کاشت رقبے کو بھی پانی نہیں ملتا، دریائوں میں پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے مگر یہ بھی دیکھئے کہ جب شدید بارشیں اور سیلاب کا موسم آتا ہے تو انڈیا سیلابی پانی ہمارے دریائوں میں چھوڑ دیتا ہے اور خود کو بچا لیتا ہے، یہ سب کچھ سندھ طاس کے نام سے ہونے والے معاہدے کے غلط اثرات ہیںجو ہم بھگت رہے ہیں۔پانی نہ ہونے کی وجہ سے دریائے ستلج کی پوری تہذیب مر گئی ، ہنستی بستی آبادیاں ویران ہو گئیں ، چولستان کے بعد ایک اور چولستان وجود میں آنے لگا ، دریا کی بندش سے لوگوں نے دریا کی گزرگاہوں پر گھر بھی بنا ئے مگر جب سیلاب آتا ہے تو بھارت کی طرف سے چھوڑا جانے والا پانی ہر طرف تباہی پھیلا دیتا ہے۔ بھارت کی طرف سے دریائے ستلج میں چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے بہاولنگر ، وہاڑی اور بہاولپور سمیت دیگر علاقوں میں سیلاب آ گیا ہے، پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا مالی نقصان بھی ہوا ہے، کھڑی فصلیں سیلاب کی زد میں آ چکی ہیں البتہ انتظامیہ حفاظتی اقدامات کر رہی ہے، جیسے کہ پہلے ذکر ہوا کہ دریائے ستلج میں ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پانی کے بہائو میں مزید اضافہ ہوگیا، محکمہ آبپاشی کے اطلاعاتی نظام کے مطابق ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کا بہائو 83570 کیوسک ہے، بہاولنگر، چشتیاں اور ہیڈ سلیمانکی کے متعدد مقامات پر ریلیف کیمپس قائم کردیے گئے ہیںجبکہ بہاولپور کور کے فوجی دستے اضافی سازوسامان کے ساتھ مختلف مقامات پرموجود ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے، پچھتر سال سے یہی کہانی چل رہی ہے، انڈیا کی آبی جارحیت پاکستان خصوصاً وسیب کو مسلسل تباہ کر رہی ہے ، پانی زیادہ ہو تو لوگ سیلاب سے مر جاتے ہیں ورنہ پیاس سے۔ سندھ طاس معاہدہ دراصل ایک غلط معاہدہ تھا ، پاکستان کے لالچی اور بے بصیرت لوگوں نے یہ معاہدہ کر کے ملک کو بہت بڑا نقصان دیا، اب اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ دریا فطرت کا عظیم شاہکار ہوتے ہیں اور فطرت ہمیشہ ناقابل فروخت ہوتی ہے جس طرح روشنی ، ہوا ناقابل فروخت ہیں اسی طرح دریا بھی ناقابل فروخت ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت سے براہ راست یا عالمی برادری کے توسط سے مذاکرات کر کے پاکستان کے تمام دریائوں کو زندہ رکھا جائے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے چولستان میں مصنوعی بارشوں کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور اسلامیہ یونیورسٹی میں چولستان ایریا سٹڈی سنٹر کا منصوبہ بھی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے منظور کرایا ہے مگر ابھی تک خاموشی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مصنوعی بارشوں کے ساتھ ساتھ چولستان کو دریا سے مستقل بنیادوں پر پانی فراہم کیا جائے کہ چولستان بہت بڑا صحرا ہے چولستان کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے پانی اور دیگر امداد پہنچائی جائے، دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کوئی سماجی ادارے امداد کیلئے وہاں پہنچے تو ان کی حوصلہ شکنی ہوئی جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر امدادی کام کرنیوالوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چولستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے یہ مطالبات بھی ہوتے آرہے ہیں کہ سابق ریاست بہاولپور میں تین نئے اضلاع اور ایک نئے ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جائے، ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کا نام چولستان ہونا چاہئے، چولستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے ساتھ ایک بڑی اور عالمی سطح کی یونیورسٹی چولستان کے نام سے قائم کی جائے جس کا رقبہ کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ ہو۔ اس یونیورسٹی میں ایگری کلچرل، میڈیکل، انجینئرنگ کالج و دیگر ذیلی ادارے موجود ہوں۔ پوری دنیا کے طالب علم اس میں داخلہ لیں گے اور چولستان ناجائز الاٹمنٹوں اور لینڈ مافیا کے عذابوں سے بچ جائے گا۔ بار دیگر کہوں گا کہ چولستان سے ملحقہ نہروں کو پورا پانی فراہم کیا جائے، انڈیا سے مذاکرات کرکے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کرائی جائے اور ستلج، راوی اور بیاس کیلئے پانی حاصل کیا جائے تاکہ ان دریائوں کی تہذیب مرنے سے بچ سکے۔ سیلاب اور بارشوں کا ذکر چلا ہے تو پورے ملک میں حفاظتی اقدامات ضروری ہے کہ گزشتہ سال کے سیلاب سے بلوچستان اور سندھ میں ہونے والی تباہی اور جانی و مالی نقصان کا مداوا ابھی تک نہیں ہو سکاکہ ایک بار پھر بارشیں اور سیلاب نے آ لیا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا نہیں ہونا چاہئے کہ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہونے والی موسلا دھار بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے جبکہ دیواریں گرنے کے 2 واقعات میں 13 افراد جاں بحق ہو گئے، راولپنڈی میں نالہ لئی کی سطح خطرناک حد تک بلندہو گئی ہے، اس سلسلے میں موثر حکومتی اقدامات ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ ہر مرتبہ ایسا ہوتا آ رہا ہے مگر کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی، پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بہترین نہری نظاموں میں شمار ہوتا ہے مگر سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان بھی نہری نظام کا ہوتا ہے، سیلاب کے نقصانات سے معاشی تباہی آتی ہے، جب معاشی تباہی آتی ہے تو غربت ،بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور غریب خودکشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر حکمرانوں کو سمجھ آئے تو وہ اس خبر سے عبرت حاصل کریں کہ نوشہرہ میں غربت سے تنگ آکر خاتون نے3 بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی، اسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک خبر کے مطابق غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر میاں بیوی نے بچوں سمیت زہر پی لیا، بتایا جاتا ہے کہ وہ سترہ ہزار پانچ سو روپے بجلی کے بل سے پریشان تھے۔