جون کی بھری دوپہر‘ امل تاس اور گل مہر کے پھول اور گھاس سے نکلتی ایک مرطوب گرم سانس۔بہار اور خزاں کے موسموں کے عاشق سبھی ہوتے ہیں ،میں وہ ہوں جو سردی کی راتوں میں ہونے والی بارش اور جون جولائی کی برستی دھوپ کا حسن دیکھتا ہوں ۔تجسس مجھے بے چین رکھتا ہے۔سکول جانے سے پہلے کی عمر میں ہی اٹ سٹ‘ کلفہ‘ چولائی‘ مینا‘ کھٹ مٹ‘ مرک اور ٹڑوں والا گھاس تک چکھ کر دیکھے۔ گملے میں پتھر جٹ کے پودے تھے۔ امی کے ہاتھ پر چندرا ہوگیا۔ کسی نے بتایا دم درودکے ساتھ پتھر چٹ باندھ کر دیکھیں۔ اس کا پتہ توڑ کر چکھ لیا۔ بھرا بھرا سا پتہ کچھ کھٹا سا تھا۔ سرکاری گھروں کے اردگرد دیواریں نہ تھیں کھٹیوں اور گارڈ ینیا کی باڑ تھی جو حد بندی کا کام دیتی۔گارڈینیا کے سفید پھولوں میں چھپا میٹھا رس ابھی تک ذائقہ دیتا ہے ۔ بہار کے موسم میں کھٹیوں اور دھریک کے پھولوں کی خوشبو کیا مسحور کن ہوتی۔ میں درختوں کے پاس کھڑا ہو جاتا، گہری سانس لے کر خوشبو اندر اتارتا رہتا۔ ہمارے کوارٹر کے عقب میں ہر سال کوس موس‘ گل اشرفی اور جربرا کے پودوں سے کیاریاں بھر جاتیں۔ کیاریوں کے ایک سرے پر کانے اور بانس کی دیوار سی بنا کر اس پر پھول مٹر کی بیلیں چڑھا دی جاتیں۔ جون میں اکثر پھول ختم ہو جاتے لیکن ان کے پرجھائے وجود زمین میں رہتے، کبھی کوئی پھول نکل آتا ،نازک پتے سوکھ جاتے،سمجھ آیا دنیا اجڑنا یہی ہوتا ہے۔ میں ان کیاریوں میں اکیلا گھوما کرتا۔ دیر تک بیٹھا پودوں کو تکتا رہتا۔ ابا جی سے کہہ کر کبھی کوئی بیج منگواتا۔ کھرپے سے زمین تیار کرتا۔ بیج بوتا‘ پانی لگاتا اور پھر روز سکول سے واپس آنے کے بعد دیکھتا رہتا کہ پودا نکلا یا نہیں۔ بھربھری نمدار مٹی سے پہلے بیج کا خول اوپر آتا۔ اس خول میں دراڑ پڑتی۔ پھر اندر سبز سبز حصہ نظر آتا۔ جڑ والا حصہ مسلسل خول والے حصے کو مٹی سے باہر دھکیلتا رہتا۔ پھر یہ خول ایک ننھی سی سبز ڈنڈی کے اوپر بلند ہونے لگتا۔ ایک دن دیکھتا تو خول جھڑ چکا ہوتا اور اندر سے دو چھوٹی چھوٹی پتیاں برآمد ہوجاتیں۔ کدو‘ ٹینڈے‘ بھنڈی‘ حلوہ کدو‘ پپیتا‘ آم‘ جامن لگ بھگ اسی طرح سے نکلتے ہیں۔ پیاز کی پنیری لگتی ہے‘ لہسن کی تریاں الگ کر کے لگائی جاتیں۔ سرکاری جگہ تھی لیکن بہت کشادہ‘ ابا جی نے دو بھینسیں گائوں سے منگوالیں۔ پہلی یا دوسری جماعت میں تھا۔ بھینسوں کے گرد رہنا میرا نیا مشغلہ ہوگیا۔ ایک بار چارہ ڈال رہا تھا کہ بھینس کا پائوں میرے نرم سے پائوں کے اوپر آ گیا۔ شدید درد‘ ٹوٹکے کے طور پر میرا پائوں بھینس کے نتھنوں کے پاس کرکے اسے سونگھایا گیا۔ ایک روز کہیں سے گھومتے ایک بھورے رنگ کا کتا آ نکلا۔ مجھے پتہ تھاکہ کتے کو میٹھی روٹی کھلائی جائے تو وہ دوست بن جاتا ہے۔ جانے یہ بات کتنی درست ہے لیکن میں نے امی سے میٹھا پراٹھا بنوا کر موتی کو کھلایا وہ اب ہمارے پاس ٹک گیا۔ ایک بزرگ بابا حاکو گھر کے پاس اپنی بھینسیں چرانے آیا کرتے۔ دھاگوں سے باندھ کر عینک کے ٹوٹے حصے جوڑے گئے تھے۔ شیشے میں تریڑ ہوتیں۔ میں ان کے پاس بیٹھ جاتا۔ یہ میرے نئے دوست تھے۔ کہنے کو میں لاہور شہر میں رہتا تھا لیکن میری دنیا الگ تھی جہاں وہی کردار میرے ساتھ تھے جن سے میری دوستی ہوئی۔ بابا حاکو‘ پھول‘ درخت‘ سبزیاں اور موتی۔ میرے دیہاتی بزرگوں نے مجھے وہ علم دیا جو شہر میں پلنے والے بچوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ آج دوست حیران ہوتے ہیں کہ پودوں اور پھولوں کے بارے میں میری معلومات وسیع ہیں۔ کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت غیر ملکی پودے دھڑا دھڑ منگوا رہی ہے۔ احسن اقبال کے بھائی مصطفی کمال ہر ایسے سودے میں شریک ہوتے۔ مصطفی کمال نے پچھلے چند عشروں میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بڑے ٹھیکے حاصل کئے۔ مجھے لگا کہ بچپن میں جن پودوں اور پرندوں کو میں دیکھا کرتا تھا وہ اب غائب ہورہے ہیں۔ غور کیا تو معلوم ہوا ہماری نباتاتی و حیاتیاتی تاریخ برباد کی جا رہی ہے۔ فطرت نے ہمارے علاقے کو جو وراثت عطا کی ہے وہ عدم توجہی کے باعث لٹ رہی ہے۔ مجھے اب کہیں جنگلی پالک نظر نہیں آتی‘ ہرمل غائب ہو چکی‘ بھکڑا نہیں رہا‘ چھوٹی چھوٹی خاردار جھاڑیوں پر بیرنما پھل لگتا‘ ہم اسے بیری ہی کہا کرتے‘ اب یہ کہیں نہیں۔ کریڑ کے ڈیلے جیسے پھل ایک سے دو فٹ قامت کی جھاڑی پر لگتے‘ اب وہ بھی مفقود ہو گئی۔ ہاں کہیں کہیں اب بھی آک کا پودا رہ گیا ہے۔ ہم اپنے گھروں میں آرائشی لینٹینا لگاتے ہیں۔ یہ مچھروں کو بھگاتا ہے۔ دیسی لنٹینا پر کالی مرچ کے حجم کا سیاہ پھل لگتا ہے۔ ہم اسے توڑ کر کھایا کرتے۔ یہ سب پودے قذافی سٹڈییم‘ سپورٹس اینڈ کوچنگ سنٹر اور گورنمنٹ فزیکل ایجوکیشن کالج (گلبرگ کالج) کے اردگرد تھے۔ ہمیں ان حدود سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی ورنہ فیروز پور روڈ پر قذافی سٹیڈیم کے موڑ کے ساتھ نہر کنارے گھنے درختوں والی نرسری میں جانے کو بہت دل کرتا۔ اتنے سال گزر گئے ایک بار پھر جون کا سورج دیکھ رہا ہوں۔ درخت کٹ رہے ہیں‘ حکومت کا محکمہ پی ایچ اے امیر بستیوں میں پھول اگاتا ہے‘ غریب بستیوں کے لیے اس کے پاس کوئی منصوبہ ہے نہ قوت فیصلہ۔ کبھی کبھی تنہا رہنے کو دل کرتا ہے۔ درختوں سے بھرے علاقے میں گم ہو جانا چاہتا ہوں۔ چاہتا ہوں کوئی مجھ سے سیاست اور حکومتوں کی بات نہ کرے‘ جب دل کرے بولوں‘ جب چاہے چپ ہو جائوں‘ صرف کان لگائوں اور اس گھاگھوڑے کی گھاس پر چلنے کی آواز سنوں جو اپنی سبز سلطنت کا شہزادہ ہے۔ جگنو کو پھر سے مٹھی میں بند کروں اور انگلیوں میں سے اس کی روشنی دیکھوں‘ پھر کانوں میں امی کی آواز آئے ’’اینوں چھڈدے‘ تیرے ہتھ اتے پیشاب کردے گا۔‘‘