سویا ہوا تھا شہر تو بیدار کون تھا سب دم بخود ہیں ایسا خطاکار کون تھا باقی ہم ہی بچے تھے سو نظروں میں آ گئے ہم جیسوں کا وگرنہ خریدار کون تھا اور پھر ایک اور خیال کلبلا رہا ہے اب تک کسی کو بھیک میں عزت نہیں ملی۔اے خوش گمان اس کا طلب گار کون تھا ۔ اور بات کہ ’کردار تھے کس کے کہانی کسی کی تھی، کوئی بتائے صاحب کردار کون تھا۔ بات دردناک ہے کہ ہمارے ہاں خاص طور ایسے موقع پر کہ جب کوئی بہانہ ہاتھ لگ جائے تو سب سے زیادہ قتل سچ کا ہوتا ہے۔ سچ کے ساتھ انصاف ضروری ہے اگرچہ سچ خود طاقت ہے مگر اس کے لئے آئیڈل معاشرہ ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ اس پر بات کی جائے کہ جو سراج الحق نے کہی ہے کہ ادارے حلف کی پاسداری کریں اور غیر جانبدار ہو جائیں ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آٹے کے ساتھ گھن کیوں پس رہا ہے کہ یہ سوال بنتا نہیںہمارے ایک سیاسی دانشور ملک محمد شفیق ایک فکری محفل میں یہ بات کر رہے تھے کہ اس میں تو کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ جو لوگ جلائو گھرائو میں شریک تھے ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے مگر پکڑنے والے ان کے اہل و عیال تک کو بھی پکڑے رہے ہیں جس سے افراتفری اور خوف کی فضا جنم لے رہی ہے۔اس میں پی ٹی آئی کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں لیکن وہیں موجود عبدالغفور ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ تو پولیس کا ایک طے شدہ آزمودہ طریقہ کار ہے کہ جب تک اس کے رشتہ داروں تک کو نہ پکڑا جائے ملزم حاضر نہیں ہوتا۔یہاں بہرحال تھوڑا سا فرق کرنا پڑے گا کہ جلسوں اور جلوسوں میں جانے والے نوجوان بہرحال عادی مجرم نہیں ہوتے اور نہ ان کے گھر والے کچھ ایسے ہوتے ہیں۔ ہاں اس پر سب سے اچھی پوسٹ ہماری اردو تحریک کی فاطمہ قمر نے لگائی کہ یہ زیادتی ہو گی کہ جو اثرورسوخ رکھتے ہیں اور متذکرہ بلوے میں شریک تھے یا سہولت کار تھے وہ معافی تلافی کے بعد پاک پوتر ہو کر ایک طرف ہوتے جا رہے ہیں جو بھی ریاست کی بقا کے درپے ہو اس کو معافی نہیں ملنی چاہیے اس پر یقینا انکوائری ہونی چاہیے ۔بظاہر یہ نظر بھی آ رہا ہے حتیٰ کہ خدیجہ شاہ کو بھی پکڑ لیا گیا ہے کہ وہ اپنا اثررسوخ استعمال کرنے کے بعد بھی گرفتاری سے نہیں بچ سکی جو بھی ہے اس معاملے سے سیاسی فائدہ ہرگز نہ اٹھا جائے۔ اب بھی دیکھیے کس طرح عوام میں فوج کے لئے جذبات عود آئے ہیں اور سب موجودہ سانحہ پر سخت ردعمل دے رہے ہیں۔ایسے ہی ایک شعر ذہن میں آ گیا: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے خوش کن بات تو ہے کہ عمران خان مذاکرات کا کہہ رہے ہیں حکومت اب طعنوں کے سوا کیا کرے گی۔آپ رانا ثناء اللہ کا بیان میں دیکھ لیں کہ عمران سے مذاکرات کریں تو کیا شہیدوں کے لواحقین ہمیں چھوڑ دیں گے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے جو بھی ہے حکومت کو اب موقع یا وقت ملا ہے کہ اپنے آپ کو انتخاب کے لئے قابل قبول بنا سکے آگے کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے یکایک سب کچھ کیسے بدل جاتا ہے انسان سمجھنے سے قاصر ہے ایک غلط چال بساط لپیٹ دیتی ہے کہ پیادے سے جیسے شاہ مر جائے حکومت ہل چل کرتی محسوس ہو رہی ہے مگر وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا: منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ بات ہو رہی تھی حکومت کی کہ وہ عوام کو لوریاں سنا رہی ہے کبھی روس سے آنے والے تیل کی بات ہو رہی ہے لوگ بھی منتظر ہیں اللہ کرے ان کی باتیں سچی ہوں وگرنہ ہمارے لئے تو سمندر سے بھی تیل نکل رہا تھا اور عین وقت پر تجربہ ناکام ہو گیا ایک مرتبہ شہباز شریف نے بھی ایک پرات اور چمچہ بجا کر بتایا تھا کہ چنیوٹ سے دھات کا خزانہ نکل آیا ہے۔اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا جائے گا۔یہ خبر اخبار کی شہ سرخی بھی ہے مگر ہم اس لفظ ریلیف سے اچھی طرح واقف ہیں بلکہ ریلیف گزیدہ ہیں۔یہ حکومت پہلے بھی تو ہمیں ریلیف دے چکی ہے کہ پٹرول ڈیڑھ سو تھا توپونے تین سو ہو گیا۔زیادہ زور ان کا عوام کو عمران خاں سے دورکرنا بلکہ عمران کو راہ سے ہٹانا ہے کہ عمران نے ویسے بھی شاہ محمود قریشی کو اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے ۔ حکومت اپنے گن دکھائے اپنی کارکردگی پر متاثر کرے تو بات؟ اس وقت مہنگائی سب سے بڑا ایشو ہے خود شہباز شریف اس پر کئی بار شرمندہ ہو چکے ہیں مگر ان کی شرمندگی یا دلجوئی کسی کام کی نہیں ہے۔یہاں آپ کے آنسو بھی آپ کے نہیں سمجھے جائیں گے لوگ بھرے بیٹھے ہیں خاص طور پر سرکاری اور دوسرے ملازمین کی تنخواہیں سچ مچ آدھی رہ گئی ہیں کہ بنیادی اکائی روٹی اور نان ایک سال میں دگنی قیمت پر چلے گئے ہیں کہ پیٹرول ہی کے حساب سے سب کچھ چلتا۔سرکاری ملازمین کے لئے سب سے اچھی بات بلاول نے کی ہے ہم تو سچ مچ خوش ہو گئے کہ بلاول نے تنخواہ میں پچاس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے اس طرح ہم زرداری پر تب سے خوش ہیں جب انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میںفیصد اضافہ کیا تھا اور ن لیگ سکتے کی حالت میں چلی گئی تھی پیپلز پارٹی ہمیشہ ملازمین کے حق میں رہی ہے جبکہ ن لیگ انہیں ذاتی ملازم سمجھتی ہے۔ ویسے یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ پچھلی مرتبہ ملازمین کی تنخواہیں تو 15فیصد بڑھائی گئی تھی مگر پنشنرز کی پنشن صرف 5 فیصد بڑھائی گئی تھی پنشن والوں کے ساتھ آخر یہ ظلم کیوں کہ وہ تو کمانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ حکومت کے سامنے میدان تو خالی ہوتا جا رہا ہے مگر پھر بھی حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔اب کھانے اور لگانے والی بات نہیں زیادہ لگانا ہی پڑے گا یا کھلانا پڑے گا۔جو بھی شہباز شریف شیر کی سواری پر ہیں ایک شعر کے ساتھ اجازت: زمیں پہ لگتے نہیں تھے کسی کے پائوں بھی کھلاراز کہ ان کے تو پائوں تھے ہی نہیں ٭٭٭٭٭