حضرت سلطان باہو علیہ الرحمۃ کا تعلق اعوان قبیلہ سے ہے ‘ آپ کے والد محترم’ حضرت بازید رحمہ اللہ مغل بادشاہ شاہ جہان کے لشکر میں اہم عہدہ پر فائز تھے ‘عہدہ چھوڑنے کے بعد جھنگ کے علاقہ شورکوٹ میں آباد ہوئے ۔آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی’ راستی بی بی‘ ہے ۔ آپ کی ولادت یکم جمادی الثانی 1039ھ کو ہوئی۔ اوائل عمری میں ہی آپ وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رہتے ‘ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔ آپ نے اپنی تقریر و تحریر سے تعلیمات اسلامیہ کو عام کیا تاکہ بھولے بھٹکے لوگ ان تعلیمات کے ذریعے راہِ راست پر آسکیں۔آپ نے اپنے اشعار میں واضح فرمایا :’’مادی جسم کے اندر موجود باطنی انسان ایک جیتا جاگتا وجود ہے جو انسان کی توجہ کا طالب ہے ۔ جس طرح مادی جسم کی تندرستی کے لیے صحیح غذا ضروری ہے اسی طرح باطنی وجود کی بھی غذا ہے جس سے وہ سکون محسوس کرتا ہے ۔ تندرست و توانا ہوتا اور قوت حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’بے شک ذکر اللہ سے ہی قلوب کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے ۔‘‘ (سورۃالرعد:آیت 28) خیال خواندن چندیں کتب چراست ترا الف بس است اگر فہم ایں ادا است ترا ترجمہ:تجھ پر اس قدر کتابیں پڑھنے کی دُھن کیوں سوار رہتی ہے اگر تُو صاحبِ فہم ہے تو تیرے لیے علمِ الف یعنی اسمِ اَللّٰہُ ذات ہی کافی ہے ۔(کلید التوحید کلاں( اسمِ اللہ راہبر است در ہر مقام از اسمِ اللہ یافتند فقرش تمام ترجمہ:اسمِ اَللّٰہُ ذات طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر راہنمائی کرتا ہے اور اسمِ اَللّٰہُ ذات سے ہی وہ کامل فقر کے مراتب پر پہنچتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں ) اسمِ اللہ بس گراں ست بس عظیم ایں حقیقت یافتہ نبی کریمﷺ ترجمہ:اسم اَللّٰہُ ذات نہایت بھاری و عظیم امانت ہے اس کی حقیقت کو صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔ (کلید التوحیدکلاں) جس طرح اسمِ اللہ، اللہ کا ذاتی نام ہے اور اس کی تمام صفات اور دیگر صفاتی ناموں کا احاطہ کرتا ہے اسی طرح اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذاتی نام ہے اور اُن کی تمام صفات اور ذات کی تمام خوبیوں کا جامع ہے اور ان کی ذات سے سب سے زیادہ وابستہ ہے اسی لیے تصورِ اسمِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلسِ محمدی کی حضوری کے لیے سب سے پُر اثر اور طاقتور ذریعہ ہے ۔ جو باطن میں دیدارِ الٰہی سے پہلے اہم مقام ہے ۔ جسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری حاصل ہوگئی اسے کامل دین حاصل ہوگیا۔ حضرت سخی سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’جو شخص اخلاص اور یقین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کرے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع لشکرِ صحابہ کرام و حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم اجمعین تشریف لا کر ظاہری آنکھوں سے زیارت کراتے اور مدد فرماتے ہیں۔(عقلِ بیدار) آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں :’’رُخِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور حضوری غرق فنا فی اللہ بھی نصیب ہو جاتی ہے ۔‘‘ (کلید التوحید کلاں) تلاش مرشد کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’انسان کے وجود میں اللہ تعالیٰ اس طرح پوشیدہ ہے جس طرح پستہ کے اندر مغز چھپا ہوا ہے ۔ مرشد کامل ایک ہی دم میں طالب اللہ کو حضورِ حق میں پہنچا کر مشرفِ دیدار کر دیتا ہے ۔کیا عالمِ حیات اور کیا عالمِ ممات کسی بھی وقت طالب اللہ تعالیٰ سے جدا نہیں ہوتا۔‘‘ (نور الہدیٰ کلاں) مرشد درخت کی مثل ہوتا ہے جو موسم کی سردی گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے زیرِ سایہ بیٹھنے والوں کو آرام وآرائش مہیا کرتا ہے مرشد کو دشمنِ دنیا اور دوستِ دین ہونا چاہیے اور طالب کو صاحبِ یقین، جو مرشد پر اپنی جان ومال قربان کرنے سے دریغ نہ کرے ۔(عین الفقر) علم کی عظمت اور جہالت کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’و جاہل مثلِ ابوجہل است باوسخن مگو‘‘جاہل ابوجہل کی مثل ہوتا ہے اس سے کلام مت کیا کرو۔جو چیزحق سبحانہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے وہ بدترین چیز جہالت ہے اور جو چیز حق تعالیٰ سے ملاتی ہے وہ علمِ دل بہار ہے ۔ (محک الفقرکلاں) شریعت اسلامی کی پاسداری کے بارے آپ اپنے رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:’’شد اجازت باھو را از مصطفے ٰ، خلق را تلقین بکن بہر از خدا‘‘فقیرِ باھو کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس بات کا حکم ہوا ہے کہ خلقت کو فی سبیل اللہ تلقین کرو۔’نورالہدیٰ شریف‘ میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:’’ہماری تصانیف میں کوئی تالیف نہیں ہے ۔ ہماری تصانیف کا ہر سخن الہامِ خداوندی ہے ۔ میں نے ہر علم قرآن و حدیث سے پایا ہے ۔ لہٰذا میری تحریر کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے اس لیے وہ پکا خبیث ہے ۔(نور الھدیٰ)آپ کی نظر میں قربِ الٰہی اور ہدایت و معرفت کے تمام خزائن تعلیماتِ قرآن اور خصوصاً شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ سلطان العارفین علیہ الرحمۃ کی تمام تر تعلیمات راہ فقر اور اس سے منسلک مقامات اور افکار سے متعلق ہیں۔ آپ حقیقتِ فقر ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:’’جو شخص اللہ اور اس کا دیدار چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے ۔فقر عین ذات ہے ۔ فقر دراصل دیدارِ الٰہی کا علم ہے ۔‘‘ (عین الفقر) جس نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ کو اختیار کیا اس نے فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رفیق بنا لیا۔ فقر سے بلند تر اور فخر والا کوئی دوسرا مرتبہ نہیں اور نہ کوئی ہو سکتا ہے ۔ فقر ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ (نور الہدیٰ کلاں) فقر کے پاس تمام الٰہی خزانے ہوتے ہیں۔ دنیاوی خزانے کو زوال ہے اور دنیا خواب و خیال ہے ۔ فقر کا خزانہ معرفت اور توحیدِ لازوال ہے ۔ جو بعینہ وصال ہے ۔ دنیاوی لذت چند روزہ ہے ۔ آخر معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہی پڑتا ہے ۔ (توفیق الہدایت (ایک مقام پر فرمایا :’’فقر ایک بادشاہ ہے جو خدا کے قرب میں ہونے کی بنا پر دونوں جہان سے بے نیاز ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں کہ وہ ہر وقت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدِّ نظر رہتا ہے ۔‘‘(محک الفقر کلاں) مزید فرماتے ہیں :’’راہ فقر فیضِ ربّانی ہے بلکہ فیضِ عام ہے جبکہ راہِ دنیا سراسر مطلق شرک ہے راہِ دنیا کو ترک کر راہِ فقر اختیار کر لے کہ راہِ فقر ہدایت ہے جس کے ہادی حضور علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ۔ (محک الفقر کلاں) اللہ تعالیٰ ہمیں اولیاء کرام کی تعلیمات مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین