’’سکھ فارجسٹس‘‘کے زیراہتمام دنیا بھرمیں مقیم سکھ ’’ خالصتان ‘‘کے قیام کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد کر کے خالصتان کے حق میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اس سلسلے میں08 مئی2022ء اتوارکو اٹلی میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا ۔اٹلی کے شہر بریشیا میں خالصتان ریفرنڈم میں تقریباً40 ہزار ووٹ کاسٹ کئے گئے۔ اٹلی کے مختلف شہروں میں تقریباً 2 لاکھ سکھ مقیم ہیں۔سکھوں کی بڑی تعداد ووٹنگ سینٹر کے باہر موجود تھی، ووٹنگ میں حصہ لینے والوں کا مطالبہ تھا کہ بھارت پنجاب پر اپناجبری قبضہ ختم کرے تاکہ خالصتان کاقیام عمل میں لایا جا سکے ۔ سوئٹزر لینڈ سمیت سات یورپی ممالک میں خالصتان ریفرنڈم کی ووٹنگ ہو چکی ہے۔ 31 اکتوبر 2021ء کو ’’سکھ فارجسٹس‘‘کے زیراہتمام دنیا بھرمیں مقیم سکھوں نے ’’ خالصتان ‘‘ کے قیام کے لیے برطانیہ میں ریفرنڈم میں حصہ لیا۔ لندن کے کوئین الزبتھ ہال ٹو میںہوئے ۔اس موقع پرسکھوں کے الگ وطن خالصتان کا نیا نقشہ بھی جاری کردیا گیا جس میں نہ صرف پنجاب بلکہ ہریانہ، ہماچل پردیش، راجستھان اور یو پی کے اکثر اضلاع کوبھی مجوزہ خالصتان میں شامل دکھایا گیا ہے۔واضح رہے کہ 31 اکتوبر وہ دن ہے جب1984ء میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کوان کے سکھ محافظوں نے قتل کردیا تھا جس نے سکھوں کی تحریک آزادی کوکچلنے کے لئے فوجی آپریشن ’’بلواسٹار‘‘ کیا تھا ۔اس وقت سے اس دن کوسکھ یو م خالصتان کے طور پرمناتے ہیں۔ ریفرنڈم کی نگرانی غیر جانبدار ادارے کر رہے تھے ۔ کوئین الزبتھ ہال ٹو کے باہر سکھ کمیونٹی نے خوب نعرے بازی کی۔دن بھرکوچز کے ذریعے ہزاروں سکھ مرد وخواتین ووٹ ڈالنے کیلئے آتے رہے اور ووٹنگ کا عمل پرامن ماحول میں مکمل ہوا۔سکھ ووٹرز کا کہنا تھا کہ ہندوستان سے آزادی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں اپنا گھر خالصتان چاہیے۔اس موقع پرسکھ لیڈ روں کا کہنا تھا کہ بھارتی دبائوکے باوجود برطانوی حکومت نے سکھوں کو خالصتان کیلئے ریفرنڈم کی اجازت دی ۔سکھ فارجسٹس کے رہمنا سردار اوتارسنگھ نے کہا تھا کہ بھارت نے پنجاب پرجبری قبضہ کر رکھا ہے، ان کاکہناتھاکہ سکھوں کے خالصتان کے قیام کے لیے برطانیہ کے 175 گردوارے ہمارے ساتھ ہیں۔اس موقع پر صدر کونسل آف خالصتان ڈاکٹر بخشی سنگھ کا کہنا تھا کہ 31 اکتوبر سکھوں کا تاریخی دن ہے۔ سکھ رہنما پرم جیت سنگھ پما نے کہا کہ ’’ ملک خالصتان‘‘ ریفرنڈم سکھوں کا جمہوری حق ہے۔ دوسری طرف سکھوں کی طرف سے اس امر کے اشارے مل رہے ہیں کہ اگرانہیں کہیں سے بھی سامان حرب وضرب مل سکے تووہ بھارت سے اپنی آزادی کیلئے حصول کیلئے پھرسے مسلح جدوجہد کی راہ پرچل پڑیں گے ۔ 9 مئی2022ء سوموار کو موہالی میں پنجاب پولیس کے انٹیلیجنس ونگ پر آر پی جی سے فائرنگ کی گئی۔ موہالی میں ہوئے اس حملے سے ایک دن پہلے پنجاب پولیس نے سرحدی ضلع ترن تارن سے آر ڈی ایکس سے بھرے دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) برآمد کرنے کے دعوے کے بعد دو افراد کو گرفتار کیا تھا ۔اس سے تین دن پہلے ریاست ہریانہ کی پولیس نے کرنال سے تین دیسی ساختہ بم اور ایک پستول کی برآمدگی کرتے ہوئے چار افراد کو گرفتار کیا جبکہ اسی دوران ہمالیائی ریاست ہماچل پردیش کی اسمبلی پر خالصتان کا پرچم لگا ہوا ملا۔ سکھوں کی طرف سے ہو رہی ان کارروائیوں سے کئی معنی اخذکئے جاسکتے ہیں۔جن میں سے ایک یہ کہ خالصتا ن کے حصول کے لیے عسکری جدوجہد کرنے کے لئے سکھوں میں اب بھی ہمت موجود ہے۔ ثانیاً انکے پاس کسی بھی ہدف پر حملہ کرنے کے ذرائع دستیاب ہیں۔ ثالثاً سکھوں کوزیر کرنے والی پولیس کے حوصلے پست کرنے کیلئے سکھ کبھی کچھ بھی کرسکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس دوران بیرون ممالک میں مقیم خالصتان تحریک سے منسلک کئی سکھ لیڈروں نے بھی خالصتان کے قیام کیلئے اپنے پیغامات نشر کئے۔ تھوڑے سے عرصے میں یکے بعد دیگرے پیش آنیوالے ان واقعات نے بھارت کیلئے چند پریشان کُن سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خالصتان کیلئے یورپ میں ریفرنڈم کامطلب کیا ہے ؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ سکھ دنیا کوبتاناچاہتے ہیں کہ وہ بھارت سے حصول آزادی کی جدوجہد سے قطعاً دستبردار ہوئے اورنہ کبھی ہوسکتے ہیں۔اس عالمی سطح پر ہوئے ریفرنڈم کی توسط سے سکھ بھارت کوبتاناچاہتے ہیں کہ چاہے کتنا بھی وقت بیت جائے لیکن وہ بھارت سے آزادی لے کررہیں گے۔ 5 جون 1984ء کو بھارتی فوج کے ٹینک اور توپخانے سکھوں کے مرکزگولڈن ٹیمپل میں گھس گئے اور سینکڑوں سکھوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس آپریشن بلیو سٹار کا نام دیا گیا ۔گولڈن ٹیمپل پر اس آپریشن کے لیے سکھوں کے مذہبی تہوار کے دنوں کا انتخاب کیا گیا جب وہاں ہزاروں سکھ موجودتھے اس حملے نے سکھ نیشنلزم اور خالصتان تحریک کے احیا کا ایسا بیج بویاجو سکھ ذہن سے نکالنا ممکن نہیں۔اسی خلش کی یہ کرشمہ سازی تھی کہ 31 اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اس کے دو سکھ گارڈز نے یہ کہتے ہوئے قتل کر دیاکہ یہ گوڈن ٹیمپل کی مجرمہ تھی۔ بلاشبہ 31 اکتوبر1984ء میں ہونے والی سکھ قوم کی نسل کشی نے اس قوم کو ایک نیا عزم دیا۔ برصغیر کی تقسیم سے بہت پہلے سازشی ہندو دماغ یہ سمجھ گیا کہ سکھوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں ہی اس کی بقا ہے۔ خود کانگرس کے لیڈروں نے 1929ء میں سکھ لیڈروں کو یقین دلایا تھاکہ انہیں نیم آزاد ریاست دی جائے گی جہاں انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو۔یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں مسلمان چھائے ہوئے تھے۔ اکثر بڑے زمیندار مسلمان تھے۔پنجاب، بھارت کی سب سے امیر ریاست تھی۔ اس زرخیز زمین کی وجہ سے بھارتی منصوبہ سازوں نے پنجاب کی دھرتی کو صنعتوں کیلئے موضوع نہیں سمجھااوراسے حصے بخرے کردیئے۔ 1966میں پنجاب کو ایک غلط مردم شماری کے بعد تقسیم کر دیا گیا اور ہماچل پردیش اور ہریانہ کی نئی ریاستین بنا دی گئیں۔ سکھ اس فیصلے پر بہت سیخ پا ہوئے مگر ان کی کسی نے سننا پسند نا کی۔اسی بد دلی اور استحصال کی وجہ سے خالصتان کا نعرہ منظر عام پر آنا شروع ہو گیا۔ اور پھر 1969ء میں متحدہ بھارتی پنجاب کے سابق وزیر خزانہ سردار جگجیت سنگھ چوہان نے آزاد خالصتان ریاست کا اعلان کیا اور خالصتان تحریک کی بنیاد رکھی۔