نئی ذمہ داریوں کی ’’سٹریم لائننگ‘‘میں کچھ زیادہ دن صَرف ہوگئے، اس میں شاید میرے’’ولولہء شوق‘‘کا بھی دخل ہو، یوں قارئین سے مخاطب ہوئے تقریبا ً ایک ماہ ہونے کو آگیا، اس دوران، اڈیٹوریل سے برادرِ عزیز امتیاز تارڑ احوالِ واقعی جاننے کے لیے تشریف لاتے رہے، تو حوصلہ ہوا کہ یہ تعلقِ خاطر محض یک طرفہ نہ ہے۔کسی محکمے کی لیڈر شپ اور کمانڈ--- اعزاز کے ساتھ ذمہ داری بھی ہے اور بالخصوص موجودہ معروضی حالات میں ’’اوقاف و مذہبی امور‘‘کی حساسیت دو چند اور اس کی سیکرٹری شپ دو رویہ خصائص اور ذمہ داریوں کی متقاضی ہے۔ اس میں ایڈمنسٹریٹو کے ساتھ علمی اور فکری (Intellectual) سطح پر بھی ہمہ وقت مستعد رہنے کی ضرورت اور عمائدینِ طریقت و معرفت،اصحابِ خانقاہ و سجادہ اور اہالیانِ دعوت وارشاد کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے، ان سے فریکونسی اور ہم آہنگی کو یقینی بنانا، دیگر انتظامی ذمہ داریوں کے علاوہ ہے۔جو کہ یقینا ایک’’سپیشلائزڈاسائنمنٹ‘‘ہے، سلاطین عہد میں صدرالصدور اور شیخ الاسلام اسی کارِ خاص کے لیے مقرر و متمکن تھے۔ ابن بطوطہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ ہندوستان میں نظام حکومت و ریاست میں نظام الملک، موید الملک، صدر الملک اور عین الملک جیسے حکومتی عہدے اور کابینہ کے ممبران داخلی،خارجی،دفاعی اور مالیاتی امور پر مشاورت و معاونت کے لیے دستیاب ہوتے،مگر علمی، دینی اور فکری معاملات میں صد ر الصدور اور شیخ الاسلام ہی کی رائے معتبر و مستند تھی اور اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے عہد کی رجحان سازخانقاہوں، فیصلہ کن مشائخ اور ان کے زاویوں، محراب ومنبر اور مدرسہ و مکتب سے قریبی روابط قائم اور حکومت و ریاست اور دینی طبقات کے درمیان ایک پْر اعتماد فضا کو مستحکم رکھے۔ سولہویں سے انیسویں صدی کے درمیان، عہد مغلیہ میں ادارہ سازی کا ارتقائی سفر برقرار رہا، اور سلطنت کی سطح پر ایک انتظامی مرکز، جس میں قانون، مالیات اور دفاع و خارجہ کے پروفیشنلزاور ماہرین، بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب و ملّت--- سول ایڈمنسٹریشن کا حصہ بنتے رہے۔ بیوروکریسی کی اصطلاح شاید بعد کی ہو، لیکن اس کا عملی تصور اور مظہر مغلوں کے ہاں بھی موجود تھا۔ تعلیم یافتہ، ذہین اور محنتی افراد سرکاری عہدوں پر فائز ہوتے۔ اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں ایسٹ انڈیا کمپنی بر صغیر پر قابض ہوئی اور پھر بتدریج برٹش سول ایڈ منسٹریشن کو آغازو ارتقا میسر آیا۔ جو عدلیہ اور انتظامیہ جیسے اہم اداروں پر محیط تھا، جنہوں نے خطّے کی تعمیر و ترقی، عروج و ارتقا، عد ل و انصاف، امن و امان اور فلاح و رفاہ جیسے امور میں گراں قدر خدمات پیش کر کے مقامی آبادی کااعتماد حاصل کیا۔ ابتداً انگریزوں نے بالواسطہ حکمرانی کی پالیسی اختیار کی۔ سول سروس زیادہ تر برطانوی افسران پہ محیط تھی، جبکہ مقامی رئیس، نواب اور حکمران ان کے معتمدتھے۔ برطانوی عہد میں یہ نظام مزیدموثر اورمعتبر ہوا، جس سے ایک مضبوط انتظامی ڈھانچہ معرض ِ عمل میں آگیا، جو کم و بیش آزادی کے بعد بھی قائم رہا۔ جس میں فیلڈ میں سب سے مضبوط افسر ڈپٹی کمشنر اور مرکزی یا صوبائی سطح پر سیکرٹری آف دی گورنمنٹ، جس کو اردو یا عربی میں مْعتَمِدیا امین بھی کہتے، جس کا معنی لائقِ اعتماد اور قابل ِ اعتبار کے ہیں۔ پاکستان میں سیکرٹریٹ کا ماڈل برطانوی پارلیمانی نظام کے مطابق معرضِ عمل میں آیا، جس نے ابتدائی سالوں بلکہ عشروں میں ملکی تعمیر وترقی، ریاستی استحکام اور حکومتی پالیسیوں وضوابط کے نفاذمیں کلید ی کردار ادا کیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ دیگر اداروں کی طرح ایگزیکٹو اور ایڈ منسٹریشن کو بھی نت نئے چیلنجز درپیش ہوئے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے، کفایت اشعاری، مہم کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی سطح پر چند اہم اقدامات کا اعلان کیا۔جس کے مطابق تمام وفاقی وزرائ، وزرائے مملکت، مشیر، معاونِ خصوصی صاحبان رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہیں، مراعات اور یوٹیلٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ الحمد اللہ!پنجاب میں سیّد محسن رضا نقوی کی پوری کیبنٹ اوّلین یوم سے ہی اس پالیسی پر گامزن ہے اور ان کی ٹیم ماشااللہ آسودہ حال بھی ہے اور خود کفیل بھی --- ہمارے اوقاف کے وزیر سیّد اظفر علی ناصر اپنی بھاری بھر کم گاڑی میں اپنی جیب ِ خاص سے روزانہ تقریبا بیس ہزار کا پٹرول ڈلواتے اور اپنے سرکاری دفتر میں ریفریشمنٹ سمیت مہمانوں کی تواضع کا اہتمام از خود کرتے ہیں۔ خدا کرے یہ روش ہمارے اداروں میں رَچ بس جائے --- بہر حال میر ی رائے میں اس کفایت شعاری سے بھی پہلے---’’خودانحصاری‘‘ ہے۔ جس کا بہترین ماڈل ’’اوقاف و مذہبی امور‘‘ہے۔ جو گورنمنٹ سے ایک پائی نہیں لیتا اور اپنے دستیاب وسائل سے ہی اپنا بجٹ بناتاہے۔ میرے خیال میں انتظامی سطح پر ’’خود انحصاری‘‘ہی وہ ماڈل ہے، جس کے اندر کفایت شعاری فطری طور پرموجود ہے۔اوقاف ایک Generative" "Selfڈیپارٹمنٹ ہے، جس کو گورنمنٹ سے کوئی گرانٹ وغیرہ میسر نہیں آتی اور اسے محض اپنے ہی مالی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے، قومی و ملکی تعمیر ترقی میں اپناحصّہ ڈالتے ہوئے رواں دواں ہے، اگرچہ موجود ہ دور میں یہ روّیہ اتنا لائقِ تقلید نہ ہے۔ اور’’حلوائی کی دوکان پہ نانا جی کی فاتحہ‘‘کا چلن عام ہے۔ تاہم ماضی میں عہدِ سلا طین اور بالخصوص مغل دور میں گورننس کا جو ماڈل روبہ عمل تھا، وہ بھی ایسا ہی تھا، جس کے مطابق سٹیٹ یا سلطنت مقامی سطح پر کچھ انتظامی یونٹ تشکیل دے کر کچھ لوگوں کو انتظامی ذمہ داریاں تفویض کرتی اور ان ذمہ داریوں سے عہدہ براء ہونے کے لیے ان کو عارضی طور پر کچھ زمین اور جاگیریں عطا کرتی تاکہ ان کی آمد ن سے وہ انتظامی اخراجات پورے کرسکیں۔ یہ مقامی عہدے دار اپنے علاقوں میں امن و امان کے ذمہ دار اور ریاست کے احکام کی تعمیل اور ان پر عملدرآمد کروانے کے پابند اور رعایا کے مسائل کی ریاستی سطح پر پذیرائی کے ذمہ دار بھی تھے۔ ان کے دائرہ کار اور علاقوں میں اگر کوئی چوری چکاری، ڈاکہ یا راہزنی ہوجاتی تو، یہ عمائدین ان کے نگران ہوتے، ان پر لازم تھا کہ وہ چور، ڈاکویا مجرم کو دستیاب کر کے نقصان کا ازالہ کریں۔بصور ت دیگر ان کو اس نقصان کو اپنی جیب سے پورا کریں۔ بہر حال بات ذرا دور چلی گئی ۔۔۔ گزشتہ چند سالوں میں کوویڈ سمیت مختلف وجوہات کے سبب اوقاف کے وسائل زَراور محصولاتِ آمدن میں خاصی کمی واقع ہوئی، تنخواہوں اور پنشنزکی ادائیگی کے علاوہ دیگر اخراجات اور ترقیاتی امور کے لیے وسائل فراہم کرنا زیادہ ممکن نہ رہا، مستزادیہ کہ اوقاف کا انتظامی، تعمیراتی، تقریباتی و مالیاتی دائرہ اور علمی، دینی و فکر ی زاویہ از حد متنوع اور وسعت پذیر ہے، جس کے سبب محکمے کا ہمہ وقت متحرک و مستعد اور سرگرم ِ عمل رہنا ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ مورخہ31 جنوری2023ء کو یہ منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنے فرائض و اہداف کو واضح کرلیا،جس کے مطابق اوقاف کے مالی بحران پر قابو پا نے اور محکمے کو تذبذب ومایوسی سے نکالنے کے لیے جامع ایکشن پلان ترتیب دیا، جس کے مطابق مالی محصولات میں بہتری کے لیے جامع حکمت عملی، کمرشل پالیسی کا آغاز و استحکام، کیش بکس انکم کی صدر دفتر کی سطح پر موثر مانیٹرنگ، فیلڈ سٹاف کے لیے ماہانہ اور سالانہ اہداف ِ زر کا واضح تعین، ماہانہ بنیادوں پر تحسین و تادیب، کرنٹ کرایہ جات کی بروقت وصولی، پرانے بقا یا جات Arrears" "Oldکی ریکوری، اوقاف کے مالی اثاثوں کی حفاظت اور بہتر سے بہتر شرائط پر ان کی سرمایہ کاری، ریاستی اداروں کا دینی طبقات سے بہتر ین اشتراک ِ عمل، تصوّف وطریقت اور دین دفقرکی ترویج، وقف پراپرٹیزکا تحفظ اور اوقاف ایمپلائز کے لیے ترقی اور خصوصی الاؤنسز کا اجرائ، بطور خاص شامل ہیں۔ الحمد اللہ!ان مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے ’’ویژن2023ء ‘‘کے تحت اوقاف اسٹیبلیشمنٹ سرگرمِ عمل ہے۔