سامنے کا سوال یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ذات کی دلدل میں گھرا ہو، دوسروں کی رہنمائی کیا خاک کرے گا؟ اپنے آپ سے جسے نجات نہیں، راستے کی اسے کیا خبر،منزل کا اسے کیا شعور؟ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ایک پاکستانی طالبہ ایما عالم کا نام شامل ہوا ہے۔ دنیا بھر میں سب سے بہترین یادداشت کی حامل۔ ان لوگوں کو یہ اعزاز بخشا جاتاہے، کمترین وقت میں جو سب سے زیادہ الفاظ، نام اور چہرے یاد رکھ سکیں۔ہمیشہ ہماری یادوں میں دمکنے والی ارفعٰ کریم بھی ایسی ہی تھیں۔پندرہ سولہ برس کی عمر میں انفرمیشن ٹیکنالوجی کے تمام مشکل مراحل وہ طے کر چکی تھی۔ اب کوئی استاد نہ تھا، جو رہنمائی کرے۔ ایک بار ان کے گرامی قدر والد تشریف لائے۔اسی موضوع پر بات کرنے کے لیے۔ یومِ قرار دادِ پاکستان کی تقریب میں معصومیت کے اس پیکر سے ملاقات ہوئی۔ اپنے عصر کے نابغہ بل گیٹس نے ریاست ہائے متحدہ کے دورے پر انہیں مدعو کیا۔باقی تاریخ ہے۔بعض اہلِ دانش کا خیال یہ ہے کہ علالت نہیں، یہ غیر ملکی حاسدوں کا برپا کردہ سانحہ تھا۔ ایک آدھ نہیں، وطنِ عزیز میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں، خیرہ کن صلاحیتوں کے حامل۔ بہت پہلے ایک سروے میں پتہ چلا تھا کہ پاکستانی دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہیں۔ برسوں پہلے ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات ہوئی تو اپنے ایک مہمان سے تعارف کرایا، جو انہی کے ہاں ٹھہرے تھے۔ برطانیہ میں مقیم،زلزلے کی سائنس کے ممتاز ترین عالمی ماہر۔ ایسے ہی ایک سائنسدان فرانس میں تھے۔ ایک صاحب ملائیشیا میں ہوتے ہیں۔ نواحِ کوالالمپور میں اپنے خوبصورت گھر میں مہاتیر محمد نے کپتان سے کہا تھا: ملائیشین جو کام سال بھر میں سیکھتا ہے، ایک پاکستانی چھ ماہ میں۔ جیسا کہ پرسوں سراج الحق نے کہا: ملائیشیا کے مدبر نے خان صاحب کو کارخانے لگانے کا مشورہ دیا تھا، عالی جناب نے لنگر خانے کھول دیے۔ عمران کو مہاتیر محمد نے تفصیل سے بتایا تھاکہ ملائیشیا تین چار سو ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر سالانہ آمدن تک کیسے پہنچا۔سبق پڑھانے سے کیا ہوتا ہے،اگر یاد نہ رکھا جائے۔کس بھولپن سے کبھی کبھی خان صاحب کہتے ہیں: جی ہاں، تفصیلات کے باب میں ذرا کمزور ہوں۔اصل یہ ہے کہ ذہنی ریاضت فرماتے ہی نہیں۔ خود سے فرصت ہی نہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، وسیم اکرم اورجہانگیر خان کی طرح ذاتی طور پر پاکستانی کمال کر دکھاتے ہیں۔ اجتماعی حیات میں مگر ناکام۔ خود اپنے خطے کی دوسری اقوام سے بہت پیچھے۔ بھارت تو کیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کمتر۔ ایک امریکی استاد نے کہا تھا: پاکستانیوں کی ذہنی استعداد غیر معمولی ہے مگر مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت برائے نام۔ ایک جہانِ معنی اس جملے میں پوشیدہ ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم ابھرتے ہیں لیکن پھر ڈوب جاتے ہیں۔ 1960ء کے عشرے میں پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک تھا۔ تعلیمی ادارے بدرجہا بہتر تھے۔ کتنے ہی ممالک کے طالبِ علم ہماری یونیورسٹیوں کا رخ کیا کرتے۔خود مہاتیر کے نائب ڈاکٹر انور نے پنجاب یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ پی آئی اے دنیا کی دوسری بہترین ائیر لائن تھی۔دنیا کے بہترین سائنسدان پاکستان میں پیدا ہوئے۔کیسے کیسے کارنامے انجام دیے۔ ایک عشرے سے زیادہ تک سکواش کے عالمی چیمپئن رہنے والے جہانگیر خاں کے بارے میں ریڈرز ڈائجسٹ نے لکھاThe champion of all champions۔ وسیم اکرم ہی نہیں، خود عمران خان بھی۔ کارِ حکمرانی میں مگر دوسروں جیسے۔ ذہنی الجھنوں میں گرفتار ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے۔ کبھی برطانیہ ایک نمونہ ء عمل نظر آتاہے، کبھی ملائیشیا اور کبھی چین۔ بائیس برس اور اڑھائی سالہ حکومت کے باوجود منزل تو کیا، ابھی تک راہ کا تعین نہیں۔ آئے دن مشیر بدلتے اور پریشان رہتے ہیں۔فرمایا: سکون تو قبر ہی میں نصیب ہوگا۔اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ عطا کرے، اب تو کرونا کا شکار ہیں۔ شنید یہ ہے کہ سخت بد دلی کا شکار ہیں۔ دس گیارہ بجے دفتر پہنچتے اور پانچ بجے لوٹ آتے ہیں۔ یہ وہ آدمی ہیں، جو زیادہ سے زیادہ صبح آٹھ بجے بروئے کا رآجا تا اور دن بھر مصروف رہا کرتا۔ جس نے دنیا کا بہترین کینسر ہسپتال قائم کیا۔ 2005ء کے زلزلے میں متاثرین کے لیے اتنے ہی گھر تعمیر کیے، جتنے پنجاب حکومت نے۔ بائیس برس تک سیاست کے میدان میں ڈٹ کر کھڑا رہا؛حتیٰ کہ وزیرِ اعظم بننے میں کامیاب ہو گیا مگر حاصل کیا؟ نمک کی کان میں نمک۔ ذاتی طور پر بدعنوان نہ سہی مگر کرپشن پہلے سے بڑھ گئی۔وہی نواز شریف، زرداری اور بے نظیر جیسی حکومت بلکہ ظفر اللہ جمالی جیسی۔ کوئی کارنامہ نہیں، حتیٰ کہ اب تو کوئی خواب بھی نہیں،بس باتیں ہی باتیں۔ظاہر ہے کہ کارنامے بزداروں کے بل پر انجام نہیں دیے جا تے۔ ایک آدمی نہیں، یہ ایک قوم کا مسئلہ ہے۔کیا یہ غلامی کی صدیوں کا ثمر ہے؟ احساسِ عدم تحفظ اور احساسِ کمتری کا نتیجہ یا اس کے سوا بھی کچھ؟ قرآنِ کریم کی وہ مختصر آیت یاد آتی رہی۔ ’’وامرھم شوریٰ بینھم‘‘۔قرآن کریم کے سچے قاری علامہ اقبالؔ بھی، جنہوں نے کہا تھا: تو کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں قرآنِ کریم ہم پڑھتے ہیں، غور کرنے کی فرصت مگر کہاں۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، علما ء ِ کرام پہ حیرت ہوتی ہے۔ اکثر کو یہ ادراک ہی نہیں کہ بندے کا نہیں، یہ اللہ کا کلام ہے۔پیغمبرانِ عظامؑ کا تو ذکر ہی کیا، رحمتہ اللعالمینؐ کی تو بات ہی کیا، ایک بڑے معلم اور مفکر کے قول کی بھی جہات ہوتی ہیں۔ قرآنِ کریم اہلِ ایمان کی جو پانچ سات نمایاں خصوصیات بیان کرتاہے، ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں۔ مشورہ نہیں، مشاورت! گہری اور نتیجہ خیز بحث؛حتیٰ کہ اطمینان پیدا کر دے۔ ظاہرہے کہ عمل سب سے زیادہ مخلص اوراپنے علوم میں سب سے زیادہ مہارت رکھنے والوں کی ریاضت ہی سے ممکن ہوگا۔ ایک دن اپنے ایک خواب کی تعبیر جناب عمر بن خطابؓ نے اپنے بچّوں سے بیان کی: ماتھے پر زخم والا ایک شخص میری اولاد میں ہوگا، جس کے محاسن پر دنیا تعجب کرے گی۔ یہ عمر بن عبد العزیزؓ تھے۔ ایک خچر کی دولتّی سے جن کے ماتھے پر گہری چوٹ آئی تھی۔ عشاء کی نماز پڑھ چکتے تو دمشق کے اہلِ علم کو مدعو کرتے۔ رات گئے تک فقہ، امورِ مملکت اور دوردراز کی سرزمینوں میں پیدا ہونے والے مسائل پرسیر حاصل گفتگو ہوتی۔ ع چہ خوشا حرفے کہ گوید آشنا با آشنا کیسی شاندار بحث؟رقم ہوتی تو اہلِ علم آنکھوں سے لگاتے، اس کے متون حفظ کیا کرتے۔ بارہ سو برس تک دنیا پر حکومت کرنے کے بعد اجتماعی حیات کا ہنر ہم بھول چکے۔ اس ناچیز کے خیال میں اس لیے کہ اپنی ذات سے ہم گزر نہیں سکتے۔ اپنی نفی ہم کر نہیں سکتے۔ ہیجان کا شکار رہتے ہیں۔سامنے کا سوال یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ذات کی دلدل میں گھرا ہو، دوسروں کی رہنمائی کیا خاک کرے گا؟ اپنے آپ سے جسے نجات نہیں، راستے کی اسے کیا خبر،منزل کا اسے کیا شعور؟ پسِ تحریر: ’ایران ان ملکوں جیسا نہیں، جو ایک فون کال پر اپنا فیصلہ بدل لے‘چینی وزیرِ خارجہ کا بیان۔