75 برس بیت گئے، مزید 75 برس بھی بیت جائینگے، ترقی کا سفر پٹڑی پر چڑھنے کے بعد شروع ہوگا اور ہم پٹڑی پر چڑھ نہیں پا رہے، راستہ آسان نہ ہوگا مگر ابتدائے سفر آگ کا دریا بنا دیا گیا، "سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ۔۔۔ ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے". قیام پاکستان کے بعد بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والی رقم روک لی، سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ سر پر آن کھڑا ہوا، حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے وزیر خزانہ ملک غلام محمد سے کہا کہ وڈیروں اور سرمایہ داروں کا اجلاس مدعو کر کے مادر وطن کو درپیش مالی کشمکش سے آگاہ کریں، ملک غلام محمد نے جواباً کہا: میں ایسا نہیں کر سکتا اور کسی ملک کا وزیر خزانہ یہ کام نہیں کرتا، گورنر جنرل محمد علی جناح شدید برہم ہوئے اور فرمایا کہ جس قوم نے اس ملک کو قائم کیا ہے، وہ اسے قائم و دائم رکھنے کیلئے بھی ضرور اپنا کردار ادا کرینگے، پھر کیا تھا؛ اجلاس مدعو کیا گیا اور ضرورت سے زائد رقم جمع کروا دی گئی، درحقیقت قوم کو راہ نہیں دی جارہی اور مخصوص طبقات کی اجارہ داری کی خواہش نے قوم کو متنفر کر رکھا ہے، لہذا منزل کی چاہ کے بغیر روں دواں معاشرہ جسم بے جاں کی مانند بن چکا ہے، قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین سے لے کر ملک غلام محمد اور میجر جنرل سکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے دور سے لے کر ضیاء الحق کی آمریت، بعدازاں پرویز مشرف کے جمہوریت پر شب خون مارنے سے اب تک جو تماشے جاری ہیں، انکی پرتوں کو ازسر نو دھرانے کی ضرورت نہیں، پاکستانی قوم تمام کرداروں سے آشنا ہوچکی، دنیا میں جمہوری نظام تک کا سفر انسانی معاشرے کی ترقی کی خواہشات پر چند بالادست طبقات کے درپردہ مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اپنے انداز میں رائج کیا جاتا رہا۔ جمہوری معاشروں میں پارلیمانی نظام جمہوریت مہنگا ترین نظام تصور کیا جاتا ہے، پارلیمانی نظام جمہوریت کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے ہیں اور یہی اس نظام کا حسن اور بقا کا بنیادی کلیہ ہے، برطانیہ پارلیمانی نظام جمہوریت کی سب سے بڑی مثال ہے، یورپ کے بیشتر ممالک اور نیوزی لینڈ میں اس نظام کی بدولت عام آدمی کی زندگی آسودہ ہے اور بااختیار ہے، بھارت میں بھی پارلیمانی نظام جمہوریت کے تحت اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں عام آدمی کی بجائے بالادست طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھا جاتا ہے، 2700 ارب سے زائد سالانہ اشرافیہ سبسڈی کے نام پر ڈکار جاتی ہے، عوام کو شریک اقتدار نہیں کیا جاتا۔بدقسمتی سے انگریز اور ہندو سے آزادی کے 75 سال بعد بھی ہم کسی ایک ایسی جمہوری حکومت کے وزیر اعظم کا نام نہیں جانتے، جس نے آئین کے مطابق اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ہو، ہمارے پارلیمانی نظام جمہوریت میں عام آدمی کو دونوں بالادست ایوانوں میں کوئی نمائندگی حاصل نہیں، قانون سازی سیاسی و نجی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے، غریب اور مڈل کلاس طبقہ اگر مہنگائی اور غربت سے بلبلا رہا ہے تو حکمرانوں کے پاس اس کا جواب محض سابقہ حکومت پر تنقید ہے، حل کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا، ملک کو دستیاب وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے اور نہ ہی ان وسائل سے مستفید ہو کر شاہراہ ترقی کا مسافر بننے کی کوئی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، موجودہ دور میں ایسے تمام مسائل کسی سے پوشیدہ نہیں، بس ذہنوں میں سوال در سوال اور جواب الجواب کی الجھنیں ہیں،"کبھی تو ہو گا ہمارے بھی یار پہلو میں … کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا". وزیر خارجہ بلاول اب بھی کہتے ہیں کہ آمر ضیاء الحق کی باقیات ہمارے ہاں موجود ہیں، کیا خوب کہا گیا "اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔۔۔ دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ".پارلیمانی نظام جمہوریت کی مالا جپنے والے ہم بتا کیوں نہیں دیتے کہ ہمارے ہاں جمہوریت برائے نام ہے، جمہوریت اگر اسے کہتے ہیں، جس کی قوالی ہم 75 سالوں سے کر رہے ہیں تو پھر برطانیہ، بیشتر دیگر یورپی ممالک اور نیوزی لینڈ میں کوئی جمہوریت نہیں، ہم جسے جمہوریت کہتے ہیں؛ وہ کم از کم ان ممالک کے نظام پارلیمانی جمہوریت کی نفی ہے لیکن مادر وطن میں جمہوریت کی پذیرائی اور اسکی تالیاں پیٹنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے، عجب طرفہ تماشا ہے: دکھ بھی دیتے ہیں اور ماتم بھی نہیں کرنے دیا جاتا! پہلے ہی عوام کے وجود پر صدیوں کی غلامی کے اثراتِ تھے، حکمران طبقے نے ذہنوں کو مزید محدود اور مفلوج بنانے کے ہر کارخانہ کے دروازے کھول رکھے ہیں، معمہ فقط اس گتھی کو سلجھانے کا ہے کہ ملک میں غربت کیسے کم کی جاسکتی ہے؟ عام آدمی کیلئے ترقی کا مساوی راستہ کس طریقے سے استوار کرنا ہے تاکہ ملت مملکت کی ترقی کا زینہ بن سکے لیکن نہیں، ایسا کرنا ہے نہ کسی کو کرنے دینا ہے، تاویلوں اور تقریروں کی صورت میں ایسے ایسے مسائل اور بحران پیدا کر دئیے گئے کہ سوچیں مفلوج ہوچکی ہیں، برطانوی پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نظام کے تابع کسی مسئلہ کے حل کی جانب پیش قدمی سے قبل مخالفین پر تنقید اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے میں لمبا عرصہ ضائع کرنے کے بعد حل کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے، اس تناظر میں برطانوی سوچ کے مقابلے میں جاپان کی سوچ و طرز عمل کو سراہا جاتا ہے، جہاں براہ راست بحث و تکرار کی بجائے حل پر توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان خط ارض پر واحد پارلیمانی نظام کا حامل ملک ہے، جدھر مسئلے کے حل پر کبھی توجہ ہی نہیں دی جاتی، 75 برس بیت گئے، مزید 75 برس بھی بیت جائینگے، ترقی کا سفر پٹڑی پر چڑھنے کے بعد شروع ہوگا اور ہم پٹڑی پر چڑھ نہیں پا رہے، راستہ آسان نہ ہوگا مگر ابتدائے سفر آگ کا دریا بنا دیا گیا۔