عجمان سے واپس آتے رات کا ڈیڑھ ہو چکا تھا۔تھکن نام کو نہیں تھی۔کیا عمدہ اور نفیس لوگ تھے ،وطن سے دور لیکن اپنی مٹی کی ہر چیز سے محبت اتنی کہ اسے پاس رکھ لینا چاہتے ہیں ۔میں ذاتی زندگی میں تھوڑا بہت منظم آدمی ہوں۔اپنی چیزوں کو بکھیرتا اور پھیلاتا نہیں۔میرا سامان عام طور پر تیار ہوتا ہے ۔کہیں جانا ہو تو پانچ منٹ میں تیار ۔کوئی شاپنگ کی نہیں تھی۔مناہل کے لئے چاکلیٹ تھے جو دو دن پہلے ہی رکھ لئے تھے۔جوگرز رکھے۔طاہر علی بندیشہ میری طرح گھر میں تہہ بند پہنتے ہیں۔ ان کے پاس ایک فاضل تہہ بند تھا۔پورا ہفتہ میں اسی کے ساتھ سوتا رہا۔سچ پوچھیں تو جو نیند اس میں آتی ہے وہ کسی اور لباس میں کہاں ۔ہاں سردیاں ہوں تو شلوار قمیض ٹھیک ہے ۔ٹریک سوٹ والے ٹراوزر اور شارٹس نہیں پہنتا، پالش ساتھ لے کر گیا تھا لیکن پورے ہفتے میں ایک دو بار ہی ضرورت پڑی۔ہم جن علاقوں میں پھرتے رہے وہاں گرد نام کو نہیں تھی۔جوتے صاف اور چمکتے رہے ۔باہر گرمی ضرور ہوتی ہے لیکن ایئر کنڈیشنڈ گاڑی سے اتر کر ٹھنڈے ٹھار گھروں اور دفتروں میں داخل ہو جانے والے کو تپش کا احساس تک نہیں ہوتا۔ سرمد خان چار روز کے لئے پاکستان جا رہے تھے ،وہاں کوئٹہ ،کراچی اور لاہور میں چارٹرڈ اکاونٹنٹس اور فنانس ایگزیکٹوز کی کانفرنسیں تھیں ۔ان کی فلائٹ پانچ بجے تھی ،صبح بیدار ہوا تو سرمد خان کوئٹہ کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔طاہر علی بندیشہ کسی کلائنٹ سے ملاقات کے لئے جا چکے تھے۔میں نے غسل کیا اور لائونج میں بیٹھ کر اخبارات دیکھ رہا تھا کہ بندیشہ صاحب کا فون آ گیا۔وہ اپارٹمنٹ کے نیچے منتظر تھے۔میں جس طرح بیٹھا تھا اسی طرح نیچے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد ہم ایک مصری ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔یہاں مصری ناشتہ تھا۔پھولی ہوئی چھوٹی چھوٹی روٹیاں‘ آٹے میں شائد مکئی یا باجرے کی آمیزش تھی جس کی بنا پر ذائقہ میں ہلکی سی تلخی تھی۔تین چار سبزیوں کی سلاد اور چقندر کا اچار تھا۔ کچھ گوشت کا سالن تھا۔ چنے اورکئی دوسری چیزیں تھیں۔میں نے پوچھا کیا یہ زیادہ نہیں؟ طاہر علی بندیشہ نے بتایا کہ یہ مصری حساب سے ایک فرد کا ناشتہ ہے۔ ناشتہ مزیدار تھا۔ہم دونوں نے سیر ہو کر کھایا پھر بھی آدھا بچ گیا۔ ناشتہ کر کے نکلے تو سمندری گودی کے پاس ایک بازار میں جا نکلے‘ اس سمندری گودی پر سامان سے بھری کشتیاں اور چھوٹے جہاز آتے ہیں۔ماحول ایسا تھا جیسے ہمارے ہاں ٹرک اڈوں کا ہوتا ہے۔پاس ہی گاڑی پارک کی اور بندیشہ صاحب کی رہنمائی میں پیدل ہو لئے۔جلد ہی حیرت محسوس ہونے لگی۔صبح دس کے قریب کا وقت تھا۔ دکانیں کھل رہی تھیں۔یہ دبئی کا قدیم بازار ہے۔یہاں اکثر پنسار کی دکانیں ہیں‘ برتنوں کی اسی طرح کی دکانیں ہیں جیسی ہمارے ہاں ہوتی ہیں۔پنسار کا کام زیادہ تر ایرانی باشندے کرتے ہیں۔میں نے بندیشہ صاحب سے کہا کہ پہلے یہاں کیوں نہ آئے۔اصل دبئی تو یہ ہے۔وہ بولے ابھی آپ کو ایک اور جگہ دکھانی ہے کوئی سوگز چلے ہوں گے کہ ہمارے دائیں ہاتھ ایک اور بازار آیا۔یہ دبئی کی گولڈ مارکیٹ ہے۔زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ ایک دکان کھلی۔ہم نے کچھ دیر انتظار کیا‘ یہ شائد کسی ہندو کی تھی۔دکان کھل چکی تھی لیکن اندر پوجا کی رسم ہو رہی تھی۔ہم نے باہر سے ہی شیشوں میں آویزاں زیورات دیکھے۔چھوٹی بڑی کئی دکانیں تھیں۔بازار ویسا ہی تھا جیسا الف لیلیٰ میں دکھایا جاتا ہے۔مقامی عرب خواتین‘ یورپی خاندان اور ایشیائی افراد کی وجہ سے رنگ رنگ کے لوگ نظر آتے ہیں۔ بندیشہ صاحب اپنا دفتری کام نمٹا آئے تھے‘ میری فلائٹ ساڑھے پانچ بجے تھی۔ایئر پورٹ پر ڈھائی تین بجے تک پہنچنا تھا۔پاسپورٹ اور ٹکٹ پتلون کی جیب میں رکھے۔بیگ لیا اور میٹرو ٹرین پر بیٹھ کر دو سٹیشن کے فاصلے پر ایئر پورٹ گیٹ نمبر 2پر اتر گئے۔میرے میٹرو کارڈ میں ابھی کچھ رقم موجود تھی۔اترتے ہی کارڈ بندیشہ صاحب کے حوالے کر دیا میرے ساتھ آنے والے باقی دو حضرات ابھی دبئی دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی فلائٹ 27مئی کو تھی۔جہاز کا سفر اگرچہ آرام دہ ہوتا ہے لیکن واپسی پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ایئر پورٹ پر اکیلے بیٹھنے اور پھر جہاز کے سفر کے دوران محسوس ہوا کہ دوستوں کا ساتھ غنیمت ہوتا ہے۔جہاز کو ساڑھے پانچ بجے روانہ ہونا تھا لیکن معلوم نہیں کیا سبب تھا کہ ایک گھنٹہ تاخیر ہو گئی۔اس دوران اے سی بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ مسافر ایئر ہوسٹسوں پر چلانے لگے۔وہ بے چاریاں بے بسی سے تحمل کی تلقین کر رہی تھیں۔پھر جہاز کے کپتان نے کسی فنی خرابی کا اعلان کیا ۔اگلے دس سے پندرہ منٹ میں جہاز تیار تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ لاہور پہنچنے ہوئے بہت تاخیر ہو جائے گی۔کپتان نے جہاز کی رفتار تیز رکھی اور ہم ساڑھے گیارہ بجے لاہور پہنچ گئے۔ ایئر پورٹ اترے تو ملک میں ایمرجنسی جیسی صورت حال تھی۔انٹر نیٹ کام نہیں کر رہا تھا۔مجھے اوبر یا ان ڈرائیو سے رابطہ کرنا محال ہو گیا۔ٹیکسی والے تین گنا کرایہ طلب کر رہے تھے۔پارکنگ سے باہر نکلا ہی تھا کہ اوریا مقبول جان صاحب کے گھر سے فون آیا کہ تھوڑی دیر پہلے انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف صاحب کو اطلاع دی۔اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ کچھ دوست مجھے واپس نہ آنے کا کیوں کہہ رہے تھے۔اگرچہ کسی کو مجھ سے کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی لیکن عزیز اور دوست سمجھ رہے تھے کہ پولیس وغیرہ اب گناہگار اور معصوم کا فرق نہیں دیکھ رہی۔خیر ایک رکشہ مل گیا اور رات ڈیڑھ بجے مسافر اپنے گھر آ پہنچا۔ سرمد خان‘ طاہر علی بندیشہ ‘ صائمہ نقوی اور 90ملکوں میں کام کرنے والی پاکستان اوورسیز گلوبل کمیونٹی کے صدر سید سلیم اختر کی محبتوں اور پرخلوص پذیرائی نے ایک بار پھر میرے لئے یہ ممکن بنایا کہ دوسو اقوام کی میزبانی کرنے والے دبئی کو جان سکوں۔دبئی ایک دنیا ہے جہاں ہم نے محنتی اور پر عزم لوگوں کو کامیاب دیکھا ۔