ادبی ایوارڈز پر لے دے ہی ہو رہی تھی کہ اکیڈمی ادبیات کی صدر نشینی اور مجلس ترقی ادب میں ناظم کی تعیناتی کا معاملہ عدالت میں جا پہنچا ہے۔ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند حکومت ِ پاکستان کی جانب سے دیے گئے ایوارڈ کی تقسیم پر ہر سال وصول کنندگان کی اہلیت زیر بحث آتی ہے مگر اس بار یہ ایوارڈ ایسے لوگوں کو دیا گیا ہے جن کی اہلیت کے بارے بہت سارے سوال اٹھے ہیں۔یہ کوئی ایسے اچنبھے والی بات نہیں اور نہ اس پر جز بز ہونے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایوارڈ کسی اہلیت کی بنیاد پر دیے جائیں اپنی پسند ناپسند پر نہیں۔صوابدید بھی اہلیت کی پابند ہے۔امسال ادیب شعرا کو دیے گئے تمغہ ِحسن کارکردگی اور دوسرے سول ایوارڈ پر بحث جاری ہے۔ اس سلسلے میں سینئر ادیب شاعر نقاد اور مدیر حسین مجروح کی ایک تحریر قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ہمارا نہیں خیال کہ یہ موقف سارے کا سارا درست ہو مگر اس میں سچائی ضرور ہے۔وہ لکھتے ہیں:" عہد ِ زوال میں اقدار ہی نہیں، محاورے بھی مسخ ہو جاتے ہیں۔ سرکاری تمغوں اور اعزازات کی "عطائی" میں تھوڑی بہت نا انصافی کی روایت تو بہت پرانی ہے بھلے وقتوں میں، اس نوع کی ڈنڈی مارے جانے کے بعد ، سرکار مدار کی جانب سے اس باب میں کسی نوع کی تلافی اور معذرت خواہی کا سلیقہ بھی استوار رکھا جاتا۔ خیر وہ زمانہ بھی مختلف تھا کہ علم و ادب کی بابت معاشرے کا احساس بڑی حد تک زندہ تھا اور ہیئت ِ حاکمہ کی آنکھ کا پانی بھی ابھی مرا نہیں تھا : یعنی کوئی پچاس برس پہلے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک منظم طریق پر ان ریوڑیوں کی بندر بانٹ شروع ہوئی کبھی بنام ِ سیاست کبھی برائے گروہ۔ اور ادھر چند برسوں سے تو ہوائے حرص و ہوس نے وہ رنگ بدلا ہے کہ بندر بانٹ کا صدیوں پرانا محاورہ، "اندر بانٹ" کی درفنطنی میں منقلب ہوگیا ہے۔ تاہم بہت چالاکی سے اس مکروہ "اندر بانٹ" پر اعتبار کی چادر اوڑھانے کیلئے درجنوں غلط بخشیوں کے پہلو بہ پہلو دو تین حقیقی استحقاق رکھنے والوں کو بھی تمغہئ￿ وخلعت سے’’سرفراز‘‘فرمادیا جاتا ہے کہ کوئی انگلی اٹھائے تو ان’’حقیقیوں‘‘کی قدر افزائی کا حوالہ دے کر تیغ ِ تنقید کو کند کردیا جائے۔اس’’اندر بانٹ‘‘کا سب سے تکلیف دہ زاویہ یہ ہے کہ زیادہ وقیع کام کرنے والوں کو نسبتاً کم درجہ اور مالی استعانت سے خالی تمغہء و خلعت کی چوسنی تھما دی جائے اور ان کی نسبت کہیں کمتر علمی و تخلیقی کارگزاری کے حامل’’اصحابِ نا صفہ‘‘کو برتر اور مالی فوائد سے لیس اعزازات کا سزاوار۔کسی شرما حضوری کا تکلف برتے بغیر۔ اس محضر کا جوہری مقصد تنقیص ِمحض ہے نا پکی پکائی ہنڈیا میں اپنے پاس سے مکھی ڈالنا۔بلکہ حق بہ حق دار رسید کے مصداق،ستائش ِحسنہ کے پہلو بہ پہلو،ان 'ڈنڈی بازیوں' اور صریح غلط بخشیوں کی نشاندہی اور ان پر گرفت کرنا ہے کہ بہرطور یہ اعزازات کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ مملکت کی امانت ہیں اور ان میں خیانت کرنے والا (خواہ کوئی ہو) اپنے ضمیر ہی کا نہیں، مملکت کا گنہ گار بھی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس فقیر کو مفت میں برا بننے،اور ادبی مافیاؤں کا خواہ مخواہ ہدف قرار دیئے جانے کا 'رسک' لینے کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ اس خاک بسر کی ساری زندگی لفظ و خیال کی سرفرازی اور بے آواز ادیبوں کی آواز بنے رہنے میں صرف ہوئی ہے ، ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کئے بغیر۔ اور یہ خاک بہ سر ادبی قبیلے کے بے آوازوں اور محرومین کا ترجمان ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ سو ایک بے لاگ اظہاریہ پیش ہے۔ اس برس کے یافتگان ( تمغہء حسنِ کارکردگی) میں نذیر قیصر، مسرت کلانچوی اور محمد الیاس کے نام دیکھ کر دلی مسرت ہوئی اور فیصلہ کرنے والوں کیلئے دل سے دعا بھی نکلی کہ یہ محترمین ساری زندگی ادب اور معیاری ادب کی تخلیق میں غایت درجہ درویشی اور خلوص کے ساتھ منہمک رہے ہیں، کسی سیڑھی کے مرہون ہوئے نہ کسی لابی کی چشم ِ عنایت کے متمنی۔ خصوصآ جناب ِ نذیر قیصر جنہیں کئی بار یہ اعزاز ملتے ملتے رہ گیا کہ ہر مرتبہ کوئی کم توفیق لیکن 'اندھوں' کا منظور ِ نظر شکرا تمغے کی بوٹی لے اڑا۔ 'ھل من مزید ' ہوس۔سپاس و انعام کا کیا جائے جسے کسی پل چین ہے نہ جس کے شانت ہونے کا دور دور تک کوئی امکان۔ موصوف ہر دوسرے برس کسی نہ کسی خلعت پر نظریں جما لیتے ہیں اور مزے کی بات کہ اپنی بیمثال استعداد،خوشامد، حاکمان ِ وقت کی چاپلوسی اور مؤثر لابنگ کے طفیل اسے ہتھیانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ہاں! میڈیا اور ہیئت۔حاکمہ کی بیساکھیاں انہیں ہر دور میں دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ 'سخاوت سے میسر رہی ہیں لیکن آپ جانیں ، ادب کی قلمرو میں کھوٹا سکہ زیادہ دیر نہیں چلتا۔ تمغوں اور خلعتوں کی اس چوہا دوڑ کا نسبتاً نیا کھلاڑی کراچی کا ایک وارداتیا ہے جسے وہاں کا گھس بیٹھیا ہی کہا جانا چاہیئے کہ علوم و فنون میں کسی نوع کی استعداد تو درکنار اس کا ادب اور آرٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس اعزاز کیلئے نمایاں ترین استحقاق محض اتنا ہے کہ وہ نوکر شاہی کے کل پرزہ ہیں اور دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں ایک کلیدی عہدے پر فائز۔ رہی بات ان کی شاعری کی تو وہ اوسط درجے سے زیادہ کی ہرگز نہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو اس سے بھی کم۔ یونہی رہا تو کیا عجب کہ اس مثلث۔ قبضہ و غصبہ کا ایک مغبچہ بھی جلد ہی اپنی مخنث شاعری کی بنیاد پر اس دستار ِفضیلت کا اہل ٹھہرے جسے اپنے سر سجانے کی آرزو لئے ہیروں ایسے درجنوں سخنور، خاک کو عزیز ہوگئے اور بیسیوں اپنی باری کے انتظار میں بستر سے لگے ہیں جس کے بر آنے کا امکان، ان پیداگیروں کی موجودگی میں بہت مدھم ہے۔تمغوں کی اسی صف میں شاعری کے کوٹے سے ایک ایسے تک بند اور خالصتاً ناشاعر کے سر پر بھی سہرا باندھا گیا ہے جس کی ' تک بندانہ ' پوٹلی میں سرے سے کوئی شعر موجود ہی نہیں اور جس کا کل اثاثہ پھکڑ پن اور مجمع گیری سے عبارت ہے۔ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا، ہجائے خود ایک ظلم ہے۔ توصاحبو ! ادب کی اقلیم میں میرٹ کی پامالی سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا "۔