اتری ہوئی ہے دھند دسمبر کی شام ہے اک صبح آرزو کہ ابھی تشنہ کام ہے اک جسستجو کے سامنے ارض و سما کی قید بے چارگی کا میرے برابر قیام ہے دسمبر سال کی حدوں پر کھڑا ہے۔ باہر دھند کا راج ہے اور اس قدر ہے کہ اپنے اندر بھی یہی کیفیت ہے۔ اس کی ایک وجہ حالات کا دگرگوں ہونا ہے۔ وہاں بھی برف نہیں پگھل رہی۔ ایسے میں دسمبر سے وابستہ یادیں برفیلی چپ میں سر اٹھا کر باتیں کرتی ہیں۔ ویسے تو ایک بے جان سی یخ بستگی ہے۔ انجماد کی کیفیت۔ باغ میں سبزہ بھی خوابیدہ ہے۔ پھولوں پر دھند کا ہے ہالا بھی۔ ٹھٹھرا ہوا خون بھی خاموش سا ہے۔ جسم سے لپٹا ہوا پالا بھی۔ یہ دسمبر جہاں عرش صدیقی کی یاد دلاتا ہے کہ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے مگر جاتے جاتے یہ ماہ کئی اور قیمتی لوگوں سے بھی وابستہ ہے۔ سردست محترمہ بے نظیر سے 27 دسمبر کو واسطہ ہے۔ ایسا سانحہ ہوا کہ پورا ملک اداسی میں ڈوب گیا۔ ملک میں چاروں اور ایک عجیب اور گھمبیر صورت حال تھی۔ صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم لوگ بے نظیر کے تعزیتی ریفرنس میں شامل تھے۔ محترم اسلم گرداسپوری کی صدارت میں جہانگیر بدر‘ ناہید اور ساری قیادت موجود تھی۔ بے شمار شاعر بھی موجود تھے کہ کچھ ماتمی نظمیں اور کعھ تعزیتی غزلیں تھیں۔ میں نے بھی کلام پیش کیا اور ایک غزل کے دو اشعار یہ تھے: درد بن کر میرے اظہار سے آگے نکلا شعر میرا تھاکہ تلوار سے آگے نکلا خود مصنف نے اسے لا کے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا جہانگیر بدر شعر ثانی پر جذبات پر قابو میں نہ رکھ سکے اور اٹھ کر کہنے لگے۔ سنو سنو! اسلم گورداسپوری کہ ہماری بی بی کیسے شہید ہوئی۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر یہ شعر کئی مرتبہ سنا کہ ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا۔ یہ صرف شعر نہیں یہ میرے عہد کا شعور ہے کہ ہم سب اپنے اصل قاتل کو جانتے ہیں۔ وہی کہ جس کے بارے میں میرا یقین ہے کہ وہ ایک ہی ہے۔ کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے۔ ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں۔ لیکن ہماری بے بسی و وارفتگی دیکھیں سب پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں کہ اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر یہ دم نکلے۔ سچ مچ یہ ہمارا المیہ ہے۔ پھر یہ بھی یاد آیا کہ ہم نے خود ایک تقریر محترمہ کی فلیٹیز ہوٹل میں سنی تھی اور آخری تقریر جو انہوں نے اتنی دیدہ و دلیر ی سے کی ان کے اندربھٹو نظر آنے لگا۔ اسی تقریر کو سن کر میں نے کہا تھا یعنی اس تقریر کو ذہن میں رکھ کر ان کی وفات پر کہا تھا: کس نے لہو گرا کے مٹایا نشان بھی سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی حاکم نے اپنے خوف سے اس کو مٹا دیا تلوار بنتی جاتی تھی اس کی زبان بھی دوسری یاد اپنے محبوب شاعر منیر نیازی کی ہے جو 26 دسمبر 2006ء میں ہم سے جدا ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ میرا سب سے زیادہ انہی کے ساتھ تعلق رہا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں بھی وہ آ جایا کرتے تھے تو نشست ہوتی‘ بے شمار مشاعرے‘ خاص طور پر میرے کالج اسلامیہ کالج سول لائنز کا شمع تاثیر مشاعرہ کہ جس کا میں کنوینر تھا ان کے بغیر کہاں ہوتا تھا۔ ایک وہ دور کہ جب آنٹی صغریٰ خانم موجود تھیں۔ ان کی بیماری میں خان صاحب گنگارام آئے تو میں بھی ان کے پاس آن پہنچتا۔ بے شمار یادیں ہیں پھر محترمہ ناہید کا ساتھ انہیں ملا تو ایک اور خوبصورت زندگی کے آثار ان میں نظر آنے لگے۔ محترمہ ناہید منیر نیازی نے تو دل و جان سے ان کے لیے آسودگی کا اہتمام کیا۔ وہ ان کے بارے میں لکھا ہوا ہر تراشہ تک محفوظ رکھتی ہیں۔ ان کے شعر انہیں ازبر ہیں۔ منیر نیازی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ سراپا شاعر۔ یعنی ان کے انداز تک شاعرانہ تھے۔ اگر میں ان کی شخصیت کے بارے میں ایک اساسی بات کرنا چاہوں تو ان کے اپنے شعر ہیں ’بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا۔ اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا‘ یا پھر جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر۔ غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں۔ یا پھر عادت ہی بنالی ہے تم نے تو منیر اپنی۔ جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا۔ ایک سے بڑھ کر ایک شعر۔ مجھے فخر ہے کہ انہوں نے اپنی نظم کی آخری دو لائنوں پر اپنا تخلص لگا کر شعر بنانے کی اجازت دی: حسن تو بس دو طرح کا خوب لگتا ہے منیر آگ میں جلتا ہوا یا برف میں سویا ہوا بہت اچھی یادیں تب کی ہیں جب ہم لوگ منیر نیازی کے گھر ان کی سالگرہ پر جمع ہوئے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ شجاعت ہاشمی‘ عامر نیازی‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف‘ صوفیہ بیدار‘ نیلما ناہید درانی‘ نسیم اختر‘ فرحت عباس‘ ڈاکٹر خالدہ انور‘ تنویر ظہور اور کتنے ہی پیارے دوست ان کے گھر جمع ہوئے۔ آخری مشاعرہ ان کے ساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی کا پڑھا۔ مجھے کہنے لگے کہ کافی میں چینی ڈال دی گئی ہے۔ بتایا گیا کہ ہرگز نہیں۔ تو وہ غصے میں آ کر کہنے لگے ’’پی کر دیکھو‘‘ تب خیال آیا کہ ساشے میں چینی مکس ہوتی ہے۔ ہم نے معذرت کی۔ یوں وہ مطمئن ہو گئے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ منیر نیازی صاحب کا کلام تواتر سے شائع ہورہا ہے۔ ابھی ایک تازہ کتاب بھی ترتیب پائی ہے۔ کناں ٹریئے ہور یہ منیر نیازی صاحب کا کل پنجابی کلام ہے جس کی ترتیب اور کھوج ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کی ہے۔ معزز قارئین میں نے سمیٹ کرلکھا ہے تب بھی پروین شاکر کے لیے جگہ تنگ پڑ گئی۔ خوشبو سے بنی شاعرہ پر بھی آئندہ کبھی لکھوں گا کہ ان کی اپنی شان ہے۔ ان سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ پہلی ملاقات احمد ندیم قاسمی کی 75 ویں سالگرہ پر ہوئی تھی۔ ان کا زیادہ تعلق بھی احمد ندیم قاسمی سے ہی تھا ۔ پروین شاکر کے خوبصورت اشعار کے ساتھ اجازت: بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے