کوئی دہائی بھر پہلے افغان جنگ کے نفسیاتی اثرات پرذہنی صحت سے مخصوص فلاحی ادارے ،' ہورائزن' نے ایک رپورٹ ترتیب دی تھی۔ ڈاکٹر خالد مفتی جنہوں نے پاکستان میں موجود مہاجر کیمپوں اور افغانستا ن کے دورے کے بعد یہ رپورٹ لکھی تھی ، سے اس کے مندرجہ جات پر میری تفصیلی بات چیت ہوئی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں خوف آتا ہے کہ جنگ سے دربدر ہونے والے بچے جوان ہونگے تو ان کے ذہن میں کیا سوالات ابھریں گے، اسکا جواب نہ تواس جنگ کو مسلط کرنے والے دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی پاکستان جہاں یہ بچے نہایت عسر ت اور نامساعد حالات میں پل بڑھ رہے ہیں۔ پانچ سال پہلے پشاور کا چکر لگا تو ڈاکٹر مفتی کے ہاں رش تھا۔ زیادہ تر ادھیڑ عمر خواتیں تھیں۔ انکے مرد نشے کی لت میں پڑچکے تھے اور وہ خود بچوں کے مستبقل کی پریشانیوں سے گھری نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹر خالد مفتی پیشے کے لحاظ سے معالج ہیں ۔ پشاور میں دماغی صحت کا ہسپتال چلارہے ہیں اور ساتھ ہی ذہنی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے ایک فلاحی ادارہ بھی۔طب میں ماسٹر ڈگری کرنے کے بعد البتہ انہیں نفسیات میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اعلٰی تعلیم اسی شعبے میں حاصل کی ۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور خیبر میڈیکل کالج کے پرنسپل کے عہدے تک جاپہنچے ۔ ابھی چند دنوں پہلے ان سے رابطہ ہوا تو رسمی جملوں کے تبادلوں کے بعد انہوں نے ملک میں دماغی صحت کی صورتحال تفصیلی روشنی ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ انہوںنے دولت بھی کمائی اور شہرت بھی لیکن اس خوشحالی سے جس ذہنی آسودگی کی توقع ہوسکتی تھی وہ انہیں میسر نہیں کہ ہر سو افلاس اور غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت لوگوں میں یاسیت کا بیج بورہا ہے کہ اسکا راستہ روکنے کی واضح اور بارآور کوشش نہیں کی جارہی ۔ بات انہوں نے خود کشی کے بڑھتے واقعات سے شروع کی اور اختتام اس حل پر کہ اربابِ اختیار، مخیر اور دانشور سب ملک کر معیشت پر توجہ دیں اور وہ بھی ایسے کہ عام آدمی میں امید کی روشنی پھوٹے۔ متبادل ذرائع روزگار پر توجہ دیں تا کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھے۔ میرا اپنا جن حالات اور معاملات سے واسطہ رہتا ہے ، میرے لیے یہ سب سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ معیشت اور سیاست پر مسلط اشرافیہ اپنی ناک سے آگے دیکھے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ ملک میں ایسی ترقیاتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں کہ معیشت میں بہتری کا اثر مخصوص طبقات تک ہی رہتا ہے۔ ملک کے اندر تو ایسے حالات نہیں کہ کاروبار سے فائدہ ہو (نہ لوگوں پاس قوت خرید ہے اور نہ ہی کاروبار کے لیے سستا میٹریل اور بجلی ) تو منافع جات یا تو غیر پیداواری شعبوں (رئیل اسٹیٹ) کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں یا پھر بیرون ملک بینک اکاونٹس میں۔ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہے۔ سود کی ادائیگی کے بعد تنخواہوں کی ادائیگی کے لالے پڑگئے ہیں تو معاشی بدحالی کو ٹیکسوں کی صورت میں عوام کو منتقل کیا جارہے حتٰی کہ اشیائے ضرورت جیساکہ دالیں ، خوردنی تیل اور پٹرولیم مصنوعات کو بھی نہیں بخشا جارہا۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے ایک تو صنعتیں دھڑا دھڑ بند ہورہی ہیں اور نتیجتاً ذرائع روزگار کم ہورہے ۔دوسری طرف اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی کا عفریت لوگوں کی قوت خرید کو نگل رہا ہے ، معیاری اشیائے خوردو نوش تک لوگوں کی رسائی کم ہوگئی ہے ۔ بھوک بیماریوں کو جنم دے رہی ہے اور یوں نفسیاتی مسائل ایک بحران کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔اب ڈاکٹر خالد مفتی کی تجویز کی طرف آتے ہیں ۔ وہ معیشت میں بہتری کی بات کر رہے ہیں کہ مسئلہ کی جڑ وہاں ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ دماغی صحت کے ماہر ہیں اور ان کا اصل موضوع مایوسی اور اسکا سد باب ہے۔ اسکے لیے انکا ایک جادوئی فارمولا توجہ طلب ہے ۔ ڈاکٹر خالد مفتی کہتے ہیں کہ دلجوئی دوتہائی علاج ہے۔خاص نقطہ یہ ہے کہ اگر معالج مریض کی دلجوئی نہ کرے تو اس سے مریض کو نقصان تو ہوتا ہی ہے کہ اسے دوائی پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے ، معالج کو بھی کہ اگر وہ مریض کی دلجوئی نہ کرے تو اسکے اپنے بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ قومی سطح پر جس گوناں گوں بحران کا ہم شکار ہیں اس کا حل ہمارے پالیسی سازوں پر بھی فرض ہے اور متمول افراد پر بھی ۔ ڈاکٹر خالد مفتی اگر ان سے ملکی معیشت کی بہتری کے حل کا کہہ رہے ہیں تو دلجوئی کا اظہار لوگوں کی فلاح سے مخصوص پالیسیوں کی صور ت میں ہوسکتا ہے۔ اس وقت جب انتخابات کا ملک میں غلغلہ ہے تو سیاسی پارٹیاں ایسے منشور کا اعلان کرسکتی ہیں جس میں عوام کی قوت خرید میں اضافے، مہنگائی کی روک تھام اور ٹیکسوں میں کمی سے متعلق واضح منصوبوں کی نشاندہی اور انکی تکمیل کے لائحہ عمل کا ذکر ہو۔ حکومت شرح سود میں کمی کا اعلان کرسکتی ہے تاکہ چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی ہو۔ شہروں میں ریڑھی بانی کی معیشت کو برداشت اور اسکی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے ۔ ریڑھی بانوں کے مال کو ضبط کرنے یا انہیں ضائع کرنے کی بجائے ان کے لیے صحت و صفائی سے مخصوص ضابطوں کے تحت جگہ مختص کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر خالد مفتی امیر طبقے سے یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ اپنی دولت غربا اور مساکین میں بانٹ دیں بلکہ دلجوئی کا کہہ رہے ہیں جو کہ فلاحی کاموں میں بھر پور شرکت اور لوگوں کو کاروبار کرنے کی حوصلہ افزائی کی صورت میں ہوسکتی ہے۔ حکومت، بینکوں اور امیر طبقے کی معیشت بحالی کے لیے کی گئی کوششیں لوگوں کو مایوسی سے نکالنے کی طرف اہم قدم ہے تو اس میں انکا اپنا بھلا بھی ہے: مایوسی میں گھری خوشحالی افسردہ رہتی ہے۔ مایوسی کے جال سے نکلنے کا راستہ ہی یہی ہے کہ خوشحالی کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔