اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس پہلے سے طے شدہ تھا اور اس کا ذرا بھر تعلق بھی یوکرین پر روسی حملے سے نہیں ہے۔تاہم حکومت پہ تنقید کے خوگر بضد ہیں کہ ان حالات میں وزیر اعظم کو اپنا دورہ ملتوی کر دینا چاہیے تھا۔لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو یہ دعوت 23سال بعد ملی تھی اور اس دورے کو صرف پاکستان کے نفع اور نقصان کے نکتہ نظر سے ہی جانچا جانا چاہیے تھا۔اس دورے کا رو پذیر ہونا ہی پاکستان کے لئے سودمند تھا جیسا کہ بعد کے عوامل سے ثابت بھی ہو گیا۔پاکستانی وزیر اعظم کا روس میں جو فقید المثال استقبال ہوا وہ پاکستان کے لئے باعث عزت ہے۔جنگی حالات کے باوجود وزیر اعظم کو ایئر پورٹ پر ہی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور پاکستانی وفد کی بھر پور عزت افزائی کی گئی۔ان کی ساری ملاقاتیں پروگرام کے مطابق ہوئیں اور پاکستان کے موقف کی پذیرائی ہوئی۔توانائی کے وزیر حماد اظہر کے مطابق 1100کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن جو کراچی سے قصور تک بچھائی جائے گی، کے مسائل تقریباً نوے فیصد حل کر لئے گئے ہیں اور انشاء اللہ اس سال کے آخر تک اس پائپ لائن پر کام شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔روسی صدر سے وزیر اعظم کی ملاقات ایک گھنٹے کے لئے طے تھی لیکن بعد میں وقت میں اضافہ کر کے تین گھنٹے کر دیا گیا۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں کی دلچسپی کس درجے تک تھی اور کیا کیا زیر غور نہیں آیا ہو گا۔اس ملاقات کا ہی نتیجہ تھا کہ روس کے وزیر توانائی جو کہ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں کو صدر پوٹن نے ذاتی طور پر ہدایات دیں کہ وہ وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے متعلقہ وزیر سے تفصیلی ملاقات کریں اور پائپ لائن بچھانے کے منصوبے میں حائل مشکلات کو دور کریں۔اس ملاقات کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی کسی تیسرے فریق کے خلاف ایک لفظ بھی شامل نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اور علاقائی مسائل کی بات کی گئی ہے۔افغانستان اور اسلامو فوبیا کے مسائل بھی زیر بحث آئے۔ اگر یہ دورہ عین وقت پر ملتوی کر دیا جاتا تو اس کا منفی اثر ہمارے تعلقات پر پڑنا تھا اور اس دورے پر نکتہ چینی کرنے والے لوگ دورہ ملتوی کرنے پر بھی زیادہ شدو مد کے ساتھ نکتہ چینی کرتے کہ وزیر اعظم امریکہ کے دبائو کی وجہ سے دورہ ملتوی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔وزیر اعظم کی باقی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم عمران خان کی دبائو میں نہ آنے اور بولڈ فیصلے کرنے کی خوبی کے ان کے نقاد بھی معترف ہیں۔وزیر اعظم نے ان حالات میں روس جانے کا دلیرانہ فیصلہ کیا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔اس دورے کے مثبت اثرات ملک کی اندرونی سیاست میں بھی پی ٹی آئی کے لئے کسی حد تک مفید ثابت ہوں گے۔ پاکستانی وفد کے روس پہنچنے کے چند گھنٹے بعد یوکرین پر حملے کا آغاز ہو گیا تھا۔وزیر اعظم نے اس صورتحال کو افسوسناک قرار دیا ہے کہ اس مسئلے کو سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا تھا۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس دورے کے عین درمیان یہ بیان دینا ضروری سمجھا کہ پاکستان کو یوکرین کے بارے میں پوری صورت حال اور امریکی موقف سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان امریکہ کا قریبی دوست ہے۔اسی طرح کا ایک بیان وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین کے دوران بھی امریکہ کے دفتر خارجہ کی طرف سے آیا تھا: پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے اور امریکہ کسی بھی ملک کو دوسرے ممالک سے تعلقات رکھنے کے بارے میں دبائو میں نہیں رکھتا۔ یہ دراصل عمران خان کے ہی ایک پرانے بیان کا جواب تھا جس میں وزیر اعظم نے کہا تھا: ہمیں دوسرے ممالک سے تعلقات کے بارے میں دبائو نہیں ڈالنا چاہیے۔یہ الگ بات ہے کہ امریکی رویے کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ چین کے بارے میں ان کا نکتہ نظر کیا ہے اور اس خطے میں ان کا اصل تزویراتی اتحادی کون ہے اور چین کے بارے میں اس اتحادی کو کیا کام سونپا گیا ہے۔پاکستان اپنا موقف متعدد بار واضح کر چکا ہے کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں ہے اور نہ بنے گا۔پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی حد تک آزادانہ خارجہ پالیسی اپنائی ہے اور امریکہ کی منشا کے خلاف دوسری طاقتوں سے تعلقات کی داغ بیل ڈالی ہے۔ جس کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔اگر عمران خان فارن پالیسی کی طرح اندرونی پالیسی میں بھی نالائق مشیروں سے پیچھا چھڑوا لیں اور میرٹ پر فیصلے شروع کر دیں تو کامیابی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ ہر جلسے میں عثمان بزدار کے قصیدے پڑھیں اور فیصل واوڈا جیسے وزیروں کے مقدمے لڑیں۔نیب کی کارکردگی پر بھی انہیں ناقدانہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ اب تک نیب نے کس سیاسی لیڈر کا محاسبہ کیا ہے۔صرف 485ارب روپے کے ریکوری پر اتراتے رہنا کوئی معانی نہیں رکھتا۔ اصولی طور پر روس کا یوکرین پر حملہ کرنا حد درجہ زیادتی ہے اور آج کی جدید دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے۔اس اصول پر چلتے ہوئے کوئی بھی طاقتور ملک اپنے کمزور ہمسائے پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہو گا۔کسی کمزور ریاست پر قبضہ کرنا پاکستان کے بنیادی موقف کی خلاف ورزی ہے۔جس طرح مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط ہم تسلیم نہیں کرتے‘اسی طرح یوکرین کے سرحدی علاقوں پر قبضہ بھی غلط ہے اور ہمیں کسی بھی دبائو کے نتیجے میں اس قضئے میں روس کی حمایت سے گریز کرنا چاہیے۔روس ایک بہت بڑا اور طاقتور ملک ہے اور ہم اس کی پالیسی پر اثرانداز ہونے سے قاصر ہیں۔ہمیں کسی بھی فورم پر روس کے اس موقف کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔یوکرین میں پاکستان کے سفیر نے نائب وزیر خارجہ سے اپنی ملاقات میں یوکرین کی سالمیت کی حمایت کا یقین دلایا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری متوازن پالیسی کا عکاس بیان ہے اور جو لوگ وزیر اعظم کے دورے کو روس یوکرین جنگ سے جوڑنا چاہ رہے تھے ان کے لئے ایک مناسب جواب ہے۔ کل یوکرین کے صدر نے ایک بیان دیا کہ اس مشکل گھڑی میں کسی ملک نے ان کی مدد نہیں کی۔ظاہر ہے ان کا اشارہ یورپین یونین اور امریکہ کی جانب تھا۔مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے‘والا معاملہ ہے یوکرین جب آزاد ہوا تو یہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایک ملک تھا۔امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی اس یقین دہانی پر یوکرین نے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری کا اعلان کیا کہ وہ یوکرین کی سلامتی اور سالمیت کے ذمہ دار ہوں گے۔یہ معاہدہ ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں دستخط ہوا تھا۔آج وہی روس حملہ آور ہے، امریکہ اور برطانیہ کنارے پر کھڑے روس پر Saectionلگا رہے ہیں۔اس میں ہمارے لئے بھی بڑے ضروری سبق پوشیدہ ہیں۔