ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم تیری حیرانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو ایک شعر مزید کہ ’’ دامن چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی۔دیکھ اے دوست مری بے سروسامانی کو‘‘ کچھ ایسی ہی بے سروسامانی آپ سیاست میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ان کی آنکھ میں آنسو بھی ہیں تو ندامت کے نہیں بلکہ مگرمچھ کے یا گلیسرین والے۔میں تو خالصتاً ادبی کالم لکھنے کے موڈ میں ہوں مگر سامنے سیاسی منظر نامہ بھی آ گیا کہ فواد چوہدری اپنی بے گناہی پر شعر پڑھتے نظر آتے ہیں مگر انہوں نے بشیر بدر کے شعروں کا ستیا ناس کر دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خاں تھے جو پوری صحت کے ساتھ ادائیگی کرتے تھے کہ خود بھی کمال کے شاعر تھے۔بشیر بدر کے اشعار لکھ دیتا ہوں کہ شاید فواد چوہدری کی اصلاح ہو جائے: کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا ویسے جو کچھ ہوا ہے اس میں کسی کو کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ بدن بولی سب کی سب کچھ واضح کر رہی ہے۔ منیر نیازی بھی یاد آئے ۔ہم بے وفا ہرگز نہ تھے۔پرہم وفا کر نہ سکے۔ ہم کو ملی اس کی سزا۔ہم جو خطا کر نہ سکے۔ بہرحال یہ ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ منیر نیازی رکشے میں بیٹھنے لگے کہ رکشے والے نے رکشہ چلا دیا کہ دوسری طرف سے کوئی خاتون بیٹھ چکی تھی۔ نیازی صاحب نے غصے سے بڑبڑانا شروع کر دیا ۔جاتے ہوئے رکشے کو دیکھا تو اس کے پیچھے لکھا تھا۔ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستومعاً مجھے خیال آیا کہ ایک شعر نوازشریف نے بھی پڑھا کرتے تھے: اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آئی ہو پرواز میں کوتاہی انہوں نے پھر اپنی پرواز میں کوتاہی آنے نہیں دی ۔پرواز کی اور لندن جا بیٹھے اور اب تک بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس سے پیشتر بھی وہ جدہ کے لئے اڑان بھر گئے تھے، تب میں نے گرہ لگائی تھی: یک بیک قید سے یہ تیرا رہا ہو جانا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ اتوار کو مجھے اپنے ہم زلف شاہد مسعود ہاشمی کی طرف جوبلی ٹائون جانا ہوا‘ادب پر باتیں شروع ہوئیں تو کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔ اچانک اردو شاعری کے عناصر اربعہ کا تذکرہ شروع ہوا۔ جن میں اصغر گونڈوی ‘ فانی بدایونی ‘جگر مراد آبادی اور حسرت موہانی شامل ہیں۔میں نے کہا کہ مجھے ان میں سے اصغر گونڈوی بہت اپیل کرتے ہیں ۔اب شاہد مسعود ہاشمی تو بہت ہی صاحب مطالعہ ہیں ۔میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کے والد محترم ولایت علی ہاشمی نے مثنوی مولانا روم کے تمام دفتراردو میں منظوم ترجمہ کر چھوڑے ہیں۔ شاہد صاحب کے بڑے بھائی علیمی صاحب کو تو سب جانتے ہیں ‘پیپلز پارٹی کے اساسی ممبر اور شاعر تھے ۔ خیر انہوں نے کمال کی بات یہ کی کہ اصغر گونڈوی نے اقبالی موضوعات کو رواں انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی انداز میں ہمعصر بھی ٹھہرتے تھے۔اصغر گونڈوی 1936ء میں اور اقبال 1938ء میں چلے گئے۔ شاہد صاحب نے اصغر گونڈوی کے اشعار پڑھے تو مزہ آ گیا: آلام روزگار کو آساں بنا دیا جو غم ہوااسے غم جاناں بنا دیا وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے جب مختصر کیا انہیں انسان بنا دیا ہائے ہائے حالی بھی کیا تھا ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا‘‘۔ ان عناصرہ اربعہ میں حسرت کو رئیس المتغزلین کہا جاتا ہے۔ جگر کا اپنا مقام ہے‘ ویسے وہ اصغر گونڈوی کے معتقد تھے۔ فانی کا بھی اپنا مقام ہے ۔’’غربت جن کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا‘‘ میرے ذھن میں ان تمام کے اشعار عود کر آ ئے ہیں ،مگر بات یہ کرنا تھی کہ اصغر ایک درویش اور صوفی شاعر تھے ۔اسی لئے اقبال کی طرح گھمبیرتا ان میں ہے۔ایک لمحے کے لئے ان کی روانیٔ شعر دیکھیے: چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے جگر کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اصغر گونڈوی سے متاثر تھے۔جب وہ یوں کہتے ہیں کہ ’’اہل خرد نے دن یہ دکھائے ‘گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے: یہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ بہت کچھ کہا جگر نے بلکہ سیاستدانوں کو بھی کہا کہ: ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے حسرت موہانی کا بھی تو خوب ڈنکا بجا غلام علی نے ان کی ایک غزل تو اپنے نام کر لی ۔جیسے نورجہاں نے فیض صاحب کی نظم اپنے نام کرا لی تھی ۔آپ سمجھ گئے ہونگے ’چپکے چپکے رات د ن آنسو بہانا یا د ہے‘ ۔ثانیاً نو ر جہاں کا گایا ہو فیض کا کلام ’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ حسرت کی زندگی تو بہت فعال تھی، سیاست بھی پاکیزہ تھی ۔حق گوئی و بے باکی والی‘جیل میں بھی رہے: ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی اب تو آپ کسی سے ادب پر بات کریں تو بھنویں تن جاتی ہیں ۔سیکھنے سکھانے اور جاننے کا عمل رک چکا۔ مادہ پرستی اور مشاعرے؟ مشاعرے بھی وہ نہیں جو سچ مچ کلچر کا حصہ تھے کہ مسابقت تھی۔کہنے کا مطلب یہ کہ کلاسک کو پڑھنا ازبس ضروری ہے۔ اگر فارسی پر دسترس ہو جائے تو اور بھی اچھا اور عربی تو خیر اس سے بھی اگلا درجہ ہے۔کبھی کبھی آپ غور کریں تو بہت لطف اٹھائیں گے اصغر اور فیض کے اشعار دیکھیں: کیا مستیاں چمن میں ہیں جوش بہار سے ہر شاخ گل ہے ہاتھ میں ساغر لیے ہوئے گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے