اقتدار کا بے رحم کھیل جاری ہے، انتخابات کے نعروں کی گونج کے باوجود انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہے، غیر ملکی ذمہ داران بھی پاکستان میں انتخابات کے بروقت انعقاد کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ،بات کرنا جتنا دشوار بنا دیا گیا، خوف سے کوئی مسئلہ حل نہیںہو سکتا ۔تاریخ کے طالب علموں سے اس کے منفی اثراتِ پر درکار تجاویز حاصل کی جاسکتی ہیں ، خوف کے عالم میں خوف پھیلایا جارہا ہے ۔گھاٹ گھاٹ کی بولیاں بولی جارہی ہیں، حکمران اتحاد جس کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، تاریخ مگر بڑے بے رحم انداز میں آشکار ہو کر رہتی ہے۔ انسانی تاریخ کی اس حقیقت کو فراموش کرنے کی غلطی ہر حکمران آخر کر ہی ڈالتا ہے، طائف کی وادیوں میں رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کس قدر ظلم ڈھایا گیا کہ قدرت قہاری کو جوش آگیا، فورآ جبرئیل امین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تو پیکر محبت و شفقت تھے، محسن انسانیت نے فرمایا: طائف کے لوگ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں اسلام کی دولت سے مالا مال ہوں گی اور پھر یہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر گوشہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے لیکن ہم توجہ نہیں دیتے، یہ امت محمدیہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اللہ رب العزت کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ زمین و آسمان میں بہت سارے ایسے راز ہیں جو انسانی دماغ کی وسعتوں سے کوسوں دور ہیں، جن کا ادراک انسانی دماغ نہیں کر سکتا۔ ہر معاشرے کی تاریخ میں اس سے مماثل راز ضرور ابھرتا ہے۔ برصغیر میں عہد مغلیہ سے بیشتر ایسے حقائق اخذ ہوتے ہیں، باپ بیٹا تخت و تاج کیلئے سر تن سے جدا کرواتے رہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا بنا، کیا فقط اقتدار کی چاہ میں خون بہتا رہا؟ ذہن کی تخلیقی وسعتوں کو زور مطالعہ سے زندہ کرنے کی مشق بہت سے تاثرات ابھارتی ہے، بہادر شاہ ظفر شعر و شاعری میں مگن رہے اور آخر کار دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔کیا کہانی محض اتنی ہے؟ نہیں، اک طویل داستان ہے؛ سننے اور سنانے کی۔افسوس مگر ہمارے پاس وقت نہیں، اقتدار کا سرور ہے یا محرومیوں کے رونے! اس قوم کا سب سے بڑا المیہ ان دو کیفیات کے درمیان گردش کرتا ہے، جن کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے متوسط طبقے کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب خطہ غربت کی لکیر تلے چالیس فیصد کے لگ بھگ آبادی کا رونا موجود ہے۔ معاشرے میں ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں متوسط طبقے کا ہی کردار ہوتا ہے۔اسلام میں میانہ روی کو دی گئی اہمیت کو جانچنے اور اس کی قدر کرنے کا ایک معاشرتی پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے مگر ہم نے متوسط طبقہ کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا،۔ سو سوچئیے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ یہاں ہر شاخ پرایک الو نہیں؛ ان کے جتھے بیٹھے ہیں، کسی بھی بات کو ایشو بنا کر رائی کا پہاڑ سامنے لا کھڑا کیا جاتا ہے، جس کی لہروں میں دانشور، میڈیا سب کے سب بہہ نکلتے ہیں، کیا یہی ایک کام رہ گیا ہے؟ اس سے بھی دل نہیں بھر پایا تو ہر اعتبار سے زور لگانے کے بعد خوف کے حربے کو استعمال میں لایا گیا ہے، سوچنے کی بات ہے، اس کیفیت کے اثرات ایک پوری نسل کی سوچنے، سمجھنے اور نکھرنے کی ذہنی صلاحیتوں کو کچلنے کا کام کریں گے۔افراد جن کا مجموعہ معاشرے کی بنیاد بنتا ہے، وہ معاشرے کی آبیاری میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرینگے۔ سوشل میڈیا سے ہزاروں اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس حقیقت کو ایک زاویہ سے تسلیم کرنا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نسل نو جس کا مطالعہ، سیاست، ادب اور ملک و ملت سے منسلک ایشوز سے کم کم سروکار تھا، وہ اپنی دلچسپی اور پسند نہ پسند کا اظہار کرنے لگی ہے اورساتھ ہی ساتھ اپنی آراء سے حکومتوں کو کئی مطالبات منوانے پر مجبور کرتی ہے۔ سیاست اور حکومتی معاملات سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنی دلچسپی کا اظہار بھی کرتی ہے۔ انھیں موجودہ حالات کیا سبق دے رہے ہیں؟ اس بارے میں کیوں سوچا نہیں جارہا، شاید درست کہا گیا: محبت اور نفرت اندھا کر دیتی ہیں، جمہوری معاشرے جمہوری سوچ اور رویوں کو جنم دیتے ہیں، غیر جمہوری معاشروں میں طاقت اور نفرت کے رجحانات مزید نفرت پیدا کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر مصنوعی جمہوری تاثرات کے ذریعے کسی قسم کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ آج کے دور کا سرمایہ دار ہر لمحہ پوری دنیا کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور اس طرح سے معیشتیں اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی ہیں، جو کوئی سٹاک ایکسچینج کی نوعیت کو جانتا ہے، اس کے لیے اس صورتحال کو سمجھنا زیادہمشکل کام نہیں، لہذا ہمارے وزیر اعظم جتنے مرضی لیپ ٹاپ تقسیم کریں اور کہیں کہ یہ ان کیلئے مشینری نہیں مشن ہے، وہ کلاشنکوف نہیں بلکہ لیپ ٹاپ ہاتھ میں تھما رہے ہیں، اس سے کسی قسم کی بہتری نہیں آنے والی نہیں۔عوام حکومت کے مشن سے آگاہ ہیں، سیاسی مخالفین کو نو مئی کے واقعات کے بعد جس انداز میں حکمران پولیس کے ذریعے انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اپنے موقف سے لوگوں کوآگاہ کر دیتی ہے۔ وزیر اعظم لیپ ٹاپ مشن کے نعرے لگا رہے ہیں، ان لیپ ٹاپس کے ذریعے بھی ناجانے کتنے لوگ بہت کچھ سن چکے، ممکن ہے: لندن سے دبئی میں ہونے والی سیاسی بیٹھکوں کی کہانیاں بھی سنی جاتی ہوں، افسانے سنانے اور سننے والوں بھی کوئی کمی نہیں۔ نواز شریف اقتدار کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ اقتدار کا بے رحم کھیل جاری ہے، طاقت کی چاہ میں وہ کچھ برپا ہے، جس کی نفی میں ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنی عمربتا دی!!! ٭٭٭٭٭